ریشم و اطلس و کم خواب نہیں دیکھتے ہیں
ہم پہ الزام ہے ہم خواب نہیں دیکھتے ہیں
جب وہ آتا ہے سرِ شام لبِ بام کبھی
آسماں! ہم ترا مہتاب نہیں دیکھتے ہیں
آپ اسے کچھ بھی کہیں آپ کی مرضی ہے جناب
ٹھان لیتے ہیں تو اسباب نہیں دیکھتے ہیں
یہ الگ بات کہ ہنستے ہوئے ٹالا ہے اسے
دل پہ کیا گزری ہے احباب نہیں دیکھتے ہیں
بستیاں جن کی ہوں دریا کے کنارے فرہادؔ
گھر بناتے ہوئے سیلاب نہیں دیکھتے ہیں