قمر جلالوی ۔۔۔ غزلیں

گر پڑی ہے جب سے بجلی دشتِ ایمن کے قریب
مدتیں گزریں نہیں آتے وہ چلمن کے قریب

میرا گھر جلنا لکھا تھا ورنہ تھی پھولوں پہ اوس
ہر طرف پانی ہی پانی تھا نشیمن کے قریب
اب ذرا سے فاصلے پر ہے حدِ دستِ جنوں
آ گیا چاکِ گریباں بڑھ کے دامن کے قریب

وہ تو یوں کہیے سرِ محشر خیال آ ہی گیا
ہاتھ جا پہنچا تھا ورنہ ان کے دامن کے قریب

میں قفس سے چھٹ کے جب آیا تو اتنا فرق تھا
برق تھی گلشن کے اندر، میں تھا گلشن کے قریب

۔۔۔۔

ظالم وہ دیکھ پاس سے اٹھتے ہیں چارہ گر
تیرے مریضِ ہجر نے توڑا ہے دم ابھی

ان کے لیے تو کھیل ہے دنیا کا انقلاب
چاہیں تو بت کدے کو بنا دیں حرم ابھی

کوچے سے ان کے اٹھتے ہی یوں بدحواس ہوں
آیا ہوں جیسے چھوڑ کے باغِ ارم ابھی

ذوقِ الم میں حق سے دعا مانگتا ہوں میں
جتنے بھی مجھ کو دینے ہیں دے دے الم ابھی

شکوے فضول گردشِ دوراں کے اے قمر
یہ آسماں نہ چھوڑے گا جورو ستم کبھی

۔۔۔

مے کدے میں جو کوئی جام بدل جاتا ہے
عالمِ گردشِ ایام بدل جاتا ہے

شامِ فرقت وہ قیامت ہے کہ اللہ بچائے
صبح کو آدمی کا نام بدل جاتا ہے

ہم اسے پہلی محبت کی نظر کہتے ہیں
جس کے آغاز کا انجام بدل جاتا ہے

نامہ بر ان کی زباں کے تو یہ الفاظ نہیں
راستے میں کہیں پیغام بدل جاتا ہے

تم جواں ہو کے وہی غنچہ دہن ہو یہ کیا
جب کلی کھلتی ہے تو نام بدل جاتا ہے

اے قمر ہجر کی شب کاٹ تو لیتا ہوں مگر
رنگ چہرے کا سرِ شام بدل جاتا ہے

۔۔۔

پاس اس کا بھی تو کر اے بتِ مغرور کبھی
تجھ سے سائے کی طرح جو نہ ہوا دور کبھی

شکوۂ حسن نہ کرنا دلِ رنجور کبھی
عشق والوں نے یہ بدلا نہیں دستور کبھی

خود ہی آ جائے تو آ جائے ترا نور کبھی
ورنہ اب موسیٰ نہ جائیں گے سرِ طور کبھی

دیکھو آئینے نے آخر کو سکھا دی وہی بات
ہم نہ کہتے تھے کہ ہو جائے گا مغرور کبھی

جانے کب کب کے لیے دھوپ نے بدلے مجھ سے
تیری دیوار کا سایہ جو ہوا دور کبھی

چاندنی ایسے کھلی ہو گئے ذرے روشن
داغ سینے سے قمر کے نہ ہوا دور کبھی

۔۔۔۔

وہ ستا کر مجھے کہتے ہیں کہ غم ہوتا ہے
یہ ستم اور بھی بالائے ستم ہوتا ہے

جل کر مرنا بھی بڑا کارِ اہم ہوتا ہے
یہ تو اک چھوٹے سے پروانے کا دم ہوتا ہے

قصۂ برہمن و شیخ کو بس رہنے دو
آج تک فیصلۂ دیر و حرم ہوتا ہے

گر حسیں دل میں نہ ہوں عظمتِ دل بڑھ جائے
بت کدہ تو انھی باتوں سے حرم ہوتا ہے

پھونک اے آتشِ گل ورنہ تری بات گئی
آشیاں برق کا ممنونِ کرم ہوتا ہے

چارہ گر میں تری خاطر سے کہے دیتا ہوں
درد ہوتا ہے مگر پہلے سے کم ہوتا ہے

ہجر کی رات بھی ہوتی ہے عجب رات قمر
تارے ہنستے ہیں فلک پر مجھے غم ہوتا ہے

۔۔۔

یہ جفائیں تو وہی ہیں وہی بیداد بھی ہے
آپ کیا کہہ کہ ہمیں لائے تھے کچھ یاد بھی ہے

کیوں قفس والوں پہ الزامِ فغاں ہے ناحق
ان میں صیاد کوئی قابلِ فریاد بھی ہے

اپنے رہنے کو مکاں لے لیے تم نے لیکن
یہ نہ سوچا کہ کوئی خانماں برباد بھی ہے

کارواں لے کے تو چلتا ہے مگر یہ تو بتا
راہِ منزل تجھے اے راہ نما یاد بھی ہے

تو حقارت سے جنھیں دیکھ رہا ساقی
کچھ انھی لوگوں سے یہ میکدہ آباد بھی ہے

اِک تو حق دارِ نوازش ہے قمر خانہ خراب
دوسرے مملکتِ پاکِ خدا داد بھی ہے

۔۔۔

آخر ہے وقت دیکھ لو بھر کر نظر مجھے
بیٹھو نہ ذبح کرنے کو منہ پھیر کر مجھے

کوسوں دکھائی دیتی نہیں رہگزر مجھے
لے جا رہی ہے آج یہ وحشت کدھر مجھے

ایسا بھی ایک وقت پڑا تھا شبِ الم
حسرت سے دیکھنے لگے دیوار و در مجھے

اے ہم قفس نہ مانگ دعائیں بہار کی
آتے نہیں ہیں راس مرے بال و پر مجھے

عذرِ گناہ حشر میں اور میرے سامنے
انکارِ قتل کیجیے پہچان کر مجھے

تعریفِ حسن کی جو کبھی ان کے سامنے
بولے کہ لگ نہ جائے تمھاری نظر مجھے

لی دی سی اِک نگاہ ستاروں پہ ڈال کے
شرما گئے کہ دیکھ رہا ہے قمر مجھے

Related posts

Leave a Comment