قمر جلالوی ۔۔۔ قفس میں محوِ زاری کاہے کو شام و سحر ہوتے

قفس میں محوِ زاری کاہے کو شام و سحر ہوتے
اسِیروں کے کسی قابل اگر صیاد پر ہوتے

مجھے صورت دکھا کر چاہے پھر دشمن کے گھر ہوتے
دم آنکھو میں نہ رک جاتا اگر پیشِ نظر ہوتے

چلو بیٹھو شبِ فرقت دعا دو ضبط کو ورنہ
مرے نالوں کو سنتے اور تم دشمن کے گھر ہوتے

علاجِ دردِ شامِ غم مسیحا ہو چکا جاؤ
مریضِ ہجر کی میت اٹھا دینا سحر ہوتے

مداوا جب دلِ صد چاک کا ہوتا شبِ فرقت
رفو کے واسطے تارے گریبانِ سحر ہوتے

قمر اللہ جانے کون تھا کیا تھا شبِ وعدہ
مثالِ درد جو پہلو سے اٹھا تھا سحر ہوتے

Related posts

Leave a Comment