نہ وہ بُلائیں نہ ہم جائیں یوں بھی ہوتا ہے
کبھی انا کے مقابل جنوں بھی ہوتا ہے
کبھی کبھی کوئی ہوتا نہیں تصور میں
کبھی کبھی دم ِ وحشت سکوں بھی ہوتا ہے
جب آنکھ کھولیے تب دیکھیے وہی عالم
شب ِ فراق میں ایسا فسوں بھی ہوتا ہے
اب ایسے شخص سے کیا بات، کیا سوال کروں
فقط نہیں ہی نہیں لب پہ کیوں بھی ہوتا ہے
سنو، اے خواہشو! خوابو! ذرا خیال رہے
یہ شہر ِ دل ہے یہاں کشت و خوں بھی ہوتا ہے