دامن دامن بھیگ چلا ہے آنکھیں ساری بے نم ہیں
اشک بھی جیسے اوس ہُوئے دیتے جو دکھائی کم کم ہیں
اک جیسی ہیں وہ جلتی آنکھوں کی ہوں کہ چراغوں کی
رخساروں منڈیروں پر جتنی بھی لَویں ہیں مدّھم ہیں
صحراؤں میں دست و گریباں اِک دوجے سے بگولے بھی
بحر کنارے موجیں بھی مصروفِ شورشِ باہم ہیں
وہ بھی جو دبنے والے ہیں نسبت اُس سے رکھتے ہیں
اور وہ بھی جو دھونس دکھائیں فرزندانِ آدم ہیں
اب کے تو آثارِ سحر جیسے نہ اِنھیں بھی دکھائی دیں
شہروں کے مینار بھی جیسے اب کے ساکت و بے دم ہیں
آخر کو کیا نام ملے جانے ایسے رکھوالوں کو
نگری بھر میں ہیں ماجد بیدار اگر تو وہ ہم ہیں