ماجد صدیقی ۔۔۔ کھیتیاں خشک اور آبیانے وہی

کھیتیاں خشک اور آبیانے وہی
آج بھی جبر کے ہیں زمانے وہی

خم وہی رہ بہ رہ نا مرادوں کے سر
کُو بہ کُو ذی شرف آستانے وہی

فاختائیں دبکتی شجر در شجر
اور زور آوروں کے نشانے وہی

رام کرنے کو مرکب کا زورِ انا
دستِ راکب میں ہیں تازیانے وہی

شیر کی دھاڑ پر جستجو اوٹ کی
اور چھپنے کو ماجد ٹھکانے وہی

Related posts

Leave a Comment