ہے وہی مزاجِ سِتم گراں ، لب ِ مہرباں نہیں کھولنا
ابھی آندھیاں بڑی تیز ہیں ، ابھی کھڑکیاں نہیں کھولنا
میں ہتھیلیوں پہ دکھائی دیتا رہوں گا تجھ کو ، مگر مجھے
کوئی اور ڈھونڈنے آئے بھی تو ہتھیلیاں نہیں کھولنا
جنھیں شہرِ آب عزیز تھا ، و سفر نصیب چلے گئے
کوئی ساحلوں پہ پکارتا رہا ، کشتیاں نہیں کھولنا!
یہ غمِ جہاں کی اَذیتیں تو میں جھیل لوںگا کسی طرح
مرے ہم سخن ! کہیں بیچ میں غمِ دوستاں نہیں کھولنا
یہ جو چار دن مرے پاس ہیں ، میں تمھاری قید میں کاٹ لوں
مجھے پا بجولاں ہی رہنے دو ، مری رسیّاں نہیں کھولنا
مری بیٹیو! تمیں اپنے اپنے گھروں میں رہنا نصیب ہو
مری بیٹیو! وہاں کوئی کچھ بھی کہے ، زباں نہیں کھولنا
مرے شب کدہ میں جو خواب ہیں ، کبھی اپنی آنکھ سے دیکھنا
مگر اس حکایتِ اَن کہی کو انیسِ جاں نہیں کھولنا!