محمد حماد ۔۔۔ عارضی احتراز شعلے کا

عارضی احتراز شعلے کا
دم میں کھلتا ہے راز شعلے کا

جس نے ڈالی تھی پہلی چنگاری
اس سے پوچھو جواز شعلے کا

سب محبت نے راکھ کر ڈالا
کیوں اٹھایا تھا ناز شعلے کا

کس گھڑی جانے یہ بھڑک اٹھے
خوف ہے نیم باز شعلے کا

چند سگریٹ پڑے ہیں ڈبی میں
ہے ابھی اک محاذ شعلے کا

چاند سورج نہ جگنوؤں کی قطار
کوئی رتبہ ہے شاذ شعلے کا

جس نے ٹھنڈا کیا تھا شعلے کو
تھا وہی کارساز شعلے کا

اے ہوا، اک ذرا ہو آہستہ
کچھ مروت لحاظ شعلے کا

Related posts

Leave a Comment