بچھڑنے والوں کا اتنا تو غم کیا جاے
کہ انکا ذکر زمانے سے کم کیا جاے
ہوا کی بات اگر مان بھی لیں فرض محال
تو کیا چراغ اندھیرے میں ضم کیا جائے
وہ جن درختوں پہ اب گھونسلے نہیں بنتے
اب ان درختوں کی شاخوں پہ دم کیا جاے
ہمارے دشت میں دریا کا کوئی کام نہیں
لہو پسینے سے مٹی کو نم کیا جائے
امانتوں میں خیانت کا ارتکاب نہ ہو
مرے سپرد یہ رنج و الم کیا جائے
ہمارا جرم کہ ہم چوریاں پکڑتے ہیں
ہمارے ہاتھوں کو پہلے قلم کیا جائے