پیڑوں کی دیکھ بھال پرندوں کو سونپ دی
مردہ دلوں نے زندگی زندوں کو سونپ دی
دنیا و دیں تو فہم و فراست کے ساتھ تھے
یہ دل کی باگ ڈور تھی رندوں کو سونپ دی
جنگل کا انصرام ہے شہروں کی طرز پر
انسانیت یہ کس نے درندوں کو سونپ دی
ہم نے ہزار مسئلے ترکے میں چھوڑ کر
آئیندگاں کی بات آئیندوں کو سونپ دی
پانی ملا رہے ہیں وہ اپنے ہی دودھ میں
یہ ذمہ داری ہم نے چرندوں کو سونپ دی
سانسوں پہ بھی سوال اٹھیں گے حساب کے
گنتی اگر شمار کنندوں کو سونپ دی
مسعود اگلی نسلوں کے سودے کے ساتھ ساتھ
یہ زندگی بھی قرض دہندوں کو سونپ دی