میر تقی میر ۔۔۔ آگے جمالِ یار کے معذور ہوگیا

آگے جمالِ یار کے معذور ہوگیا
گُل اک چمن میں دیدۂ بے نور ہوگیا

اک چشمِ منتطر ہے کہ دیکھے ہے کب سے راہ
جوں زخم تیری دوری میں ناسور ہوگیا

پہنچا قریب مرگ کے وہ صیدِ ناقبول
جو تیری صید گاہ سے ٹک دور ہوگیا

اُس ماہِ‌ چاردہ کا چھپے عشق کیوں کہ آہ
اب تو تمام شہر میں‌ مشہور ہوگیا

شاید کسو کے دل کو لگی اُس گلی میں چوٹ
میری بغل میں شیشۂ دل چور ہوگیا

دیکھا جو میں نے یار کو وہ میرؔ ہی نہیں
تیرے غمِ فراق میں‌ رنجور ہوگیا

Related posts

Leave a Comment