میر تقی میر ۔۔۔ اے تو کہ یاں سے عاقبتِ‌ کار جائے گا

اے تو کہ یاں سے عاقبتِ‌ کار جائے گا
غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا

موقوف حشر پر ہے سو آتی بھی وہ نہیں
کب درمیاں سے وعدۂ دیدار جائے گا

چُھوٹا جو میں قفس سے تو سب نے مجھے کہا
بے چارہ کیوں کہ تاسرِ‌دیوار جائے گا

دے گی نہ چین لذتِ زخم اُس شکار کو
جو کھا کے تیرے ہاتھ کی تلوار جائے گا

تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا

آئے بِن اُس کےحال ہوا جائے ہے تغیر
کیا حال ہوگا پاس سے جب یار جائے گا

کوچے میں اُس کے رہنے سے باز آئو ورنہ میر
اک دن تجھے وہ جان سے بھی مار جائے گا

Related posts

Leave a Comment