تا گور کے اوپر وہ گل اندام نہ آیا
ہم خاک کے آسودوں کو آرام نہ آیا
بے ہوشِ مئے عشق ہوں کیا میرا بھروسا
آیا جو بخود صبح تو میں شام نہ آیا
کس دل سے ترا تیرِ نگہ پار نہ گزرا
کس جان کو یہ مرگ کا پیغام نہ آیا
دیکھا نہ اُسے دور سے بھی منتظروں نے
وہ رشکِ مہِ عید لبِ بام نہ آیا
سو بار بیاباں میں گیا محملِ لیلیٰ
مجنوں کی طرف ناقہ کوئی گام نہ آیا
اب کے جو ترے کوچے سے جاؤں گا توسنیو
پھر جیتے جی اس راہ وہ بدنام نہ آیا
نَے خون ہو آنکھوں سے بہا ٹک نہ ہوا داغ
اپنا تو یہ دل میر کِسو کام نہ آیا