میر تقی میر ۔۔۔ شکوہ کروں میں کب تک اُس اپنے مہرباں کا

شکوہ کروں میں کب تک اُس اپنے مہرباں کا
القصّہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا

گریے پہ رنگ آیا قیدِ قفس سے شاید
خوں ہوگیا جگر میں اب داغ گلستاں کا

دی آگ رنگِ گل نے واں اے صبا !چمن کو
یاں ہم جلے قفس میں سن حال آشیاں کا

ہر صبح میرے سر پر اک حادثہ نیا ہے
پیوند ہو زمیں کا شیوہ اس آسماں کا

فتراک جس کا اکثر لوہو میں‌ تر رہے ہے
وہ قصد کب کرے ہے اس صیدِ ناتواں کا

کم فرصتی جہاں کے مجمع کی کچھ نہ پوچھو
احوال کیا کہوں میں اس مجلسِ رواں کا

ناحق شناسی سے یہ زاہد نہ کر برابر
طاعت سے سو برس کی سجدہ اس آستاں کا

ناحق یہ ظلم کرنا انصاف کہہ پیارے
ہے کون سی جگہ کا کس شہر کا کہاں کا

(ق)

یاروئے یا رُلایا اپنی تو یوں ہی گزری
کیا ذکر ہم صفیراں یارانِ شادماں کا

قید قفس میں ہیں تو خدمت ہے نالگی کی
گلشن میں تھے تو ہم کو منصب تھا روضہ خواں کا

پوچھو تو میرسے کیا کوئی نظر پڑا ہے
چہرہ اُتر رہا ہے کچھ آج اس جواں کا

Related posts

Leave a Comment