میر تقی میر ۔۔۔ کیا مرے آنے پہ تو اے بتِ مغرور گیا

کیا مرے آنے پہ تو اے بتِ مغرور گیا

کبھی اس راہ سے نکلا تو تجھے گُھور گیا

لے گیا صبح کے نزدیک مجھے خواب اے وائے

آنکھ اس وقت کھلی قافلہ جب دور گیا

چشمِ خوں ‌بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا

ہم نے جانا تھا کہ بس اب تو یہ ناسور گیا

نالۂ میر نہیں رات سے سنتے ہم لوگ

کیا ترے کوچے سے اے شوخ وہ رنجور گیا!

Related posts

Leave a Comment