لکھی نصیب میں تھی در بہ در کی بے چینی
سو زندگی نہیں ، میں نے بسر کی بے چینی
میں آنسوؤں کو تبسّم میں ڈھال لیتا ہوں
کھلے گی کس پہ مری چشم ِ تر کی بے چینی
اگرچہ ایک ہی کمرہ ہے میرے حصّے میں
مجھے ملی ہے مگر سارے گھر کی بے چینی
پلٹ کے آ یا تو بچوں نے اجنبی جا نا
جمی تھی چہرے پہ ایسی سفر کی بے چینی
یہ کل کی بات ہے جب صبح آئنہ دیکھا
تو شام تک چلی آ ئی سحر کی بے چینی
زبورِ جبر میں ترمیم ہو نہیں پاتی
ریاضتوں کا صلہ عمر بھر کی بے چینی
مری کہانی میں ا ب کچھ نہیں بچا ناصر
اُکھڑتی سانس ہے اور چارہ گر کی بے چینی