مری دسترس میں جو پھول تھے وہ جھلس گئے
مرے بام و در تری خوشبوؤں کو ترس گئے
مرے خواب زار اجاڑ کے ، مجھے مار کے
کہاں خاک اوڑھ کے سو رہے ، کہاں بس گئے
وہ جو سبز رُت کے سحاب تھے جو گلاب تھے
مرے دل کی دھرتی پہ آگ بن کے برس گئے
وہ ترے فقیر کی جھونپڑی ہے یہیں کہیں
وہ بلند بام عمارتیں ، وہ کلس گئے
ترے بعد کوچہِ دلبراں کا یہ حال ہے
سرِ رہگزارِ سلوک اہلِ ہوس گئے
میں عجیب حالتِ ہجر کے ہوں حصار میں
نہ تو کھل کے برسیں ہیں بارشیں نہ امس گئے
نہ تو اب وہ کونجوں کی ڈار ہے نہ قطار ہے
عجب آندھیاں ہیں کہ آشیان و قفس گئے