مرے لیے تو یہ بےکار ہونے والا ہے
یہ دل کہ عشق سے بے زار ہونے والا ہے
میں اُس سے خواب کے رستے پہ ملنے آیا ہوں
مگر وہ نیند سے بیدار ہونے والا ہے
سناہے یوسف ِ ثانی کبھی نہیں آیا
سنا ہے ختم وہ بازار ہونے والا ہے
میں جس کے نام کے اک دائرے کا قیدی ہوں
خبر نہ تھی کہ وہ پَرکار ہونے والا ہے
وہ جس کے ہاتھ سے قصے نے موت پائی ہے
سناہے صاحب ِ کردار ہونے والا ہے
جو فیصلہ سر ِ دربار ہونے والا تھا
وہ فیصلہ پس ِ دیوار ہونے والا ہے