ہمارا جسم بھی ہم سے رہائی چاہتا ہے
نمودِ خاک ہے لیکن خدائی چاہتا ہے
اسیرِ نفس ہے کوئی کہ خواہشوں کا غلام
ہر ایک شخص یہاں پارسائی چاہتا ہے
مکانِ جسم پہ اِس دل کی دستکیں بھی سنو
خوشی سے رقص میں ہے یا رہائی چاہتا ہے
یہ میرا دل تو مِرے پاؤں پڑ گیا کل شام
یہ مجھ سے بڑھ کے تِرے ہاں رسائی چاہتا ہے
ہے مختصر کہ مِرا دل اُداس رہتا ہے
وفا کے قحط میں یہ دل رُبائی چاہتا ہے
Related posts
-
محسن اسرار ۔۔۔ گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا
گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا یہ کوئی وقت ہے تیرے کمال کرنے کا برا... -
احمد فراز ۔۔۔ زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے تو محبت سے... -
فانی بدایونی ۔۔۔ آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ بچ گئی آنکھ دل پہ آئی چوٹ دردِ دل...