ہمارا جسم بھی ہم سے رہائی چاہتا ہے
نمودِ خاک ہے لیکن خدائی چاہتا ہے
اسیرِ نفس ہے کوئی کہ خواہشوں کا غلام
ہر ایک شخص یہاں پارسائی چاہتا ہے
مکانِ جسم پہ اِس دل کی دستکیں بھی سنو
خوشی سے رقص میں ہے یا رہائی چاہتا ہے
یہ میرا دل تو مِرے پاؤں پڑ گیا کل شام
یہ مجھ سے بڑھ کے تِرے ہاں رسائی چاہتا ہے
ہے مختصر کہ مِرا دل اُداس رہتا ہے
وفا کے قحط میں یہ دل رُبائی چاہتا ہے
Related posts
-
اکرم ناصر ۔۔۔ آؤ کریں یہ وعدہ سبھی، بھولنا نہیں
آؤ کریں یہ وعدہ سبھی، بھولنا نہیں اک دوسرے کو ہم نے کبھی، بھولنا نہیں ممکن... -
خاور اعجاز ۔۔۔۔ کچھ تیر کے باعث ہے نہ تلوار کے باعث
کچھ تیر کے باعث ہے نہ تلوار کے باعث مَیں کٹ کے گِرا اپنی ہی گفتار... -
اختر شمار ۔۔۔ خبر نہیں کہ ملیں ہم زباں کہیں نہ کہیں
خبر نہیں کہ ملیں ہم زباں کہیں نہ کہیں ہماری ہو گی مگر داستاں کہیں نہ...