ڈاکٹر شاہد اشرف ۔۔۔ اجنبی چلتا ہوا آنکھوں سے اوجھل ہو گیا

اجنبی چلتا ہوا آنکھوں سے اوجھل ہو گیا
صرف مُڑ کر دیکھنے سے مسئلہ حل ہو گیا
دیر تک دریا سے پیاسا گفتگو کرتا رہا
اور اسی دوران میں پانی تو بادل ہو گیا
ذات سے کردار ہم آہنگ کرنے کے لیے
ناچتے گاتے ہوئے فنکار پاگل ہو گیا
جب سفر میں گر پڑا تو پھر یقیں آیا اُسے
میں اُسے کہتا رہا میرا بدن شل ہو گیا
سخت کوشش سے خزانے تک رسائی ہو گئی
اور پھر دروازہ باہر سے مقفّل ہو گیا
وقت نے مٹّی سے سونا کر دیا آخر مجھے
قدر کھو کر اپنی وہ سونے سے پیتل ہو گیا
آ گیا درویش ویرانے میں شاہد اور پھر
کچھ دنوں میں ہی یہاں سر سبز جنگل ہو گیا

Related posts

Leave a Comment