رُکو، وہم و شبہات کا وقت ہے
کہاں جائو گے، رات کا وقت ہے
کسی بھاری پتھر تلے دے کے دل
یہ تخفیفِ جذبات کا وقت ہے
بدلنے پہ اس کے نہ یوں رنج کر
یہ معمولی اوقات کا وقت ہے
یہ کیا دل میں ریزہ رڑَکنے لگا
ابھی تو شروعات کا وقت ہے
گلے خشک، پیشانیاں تر بتر
عمل کے مکافات کا وقت ہے
Related posts
-
قمر جلالوی ۔۔۔ جا رہے ہیں راہ میں کہتے ہوئے یوں دل سے ہم
چھوٹ سکتے ہی نہیں طوفان کی مشکل سے ہم جاؤ بس اب مل چکے کشتی سے... -
ماجد صدیقی ۔۔۔ چھلک پڑے جو، سُجھاؤ نہ عرض و طول اُس کو
چھلک پڑے جو، سُجھاؤ نہ عرض و طول اُس کو جو بے اصول ہو، کب چاہئیں... -
غلام حسین ساجد ۔۔۔ جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے
غزل جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے کام لیتا ہوں وہاں نقدِ ثنا خوانی...