معتقد ہے وہ جسے یار سمجھ بیٹھے ہو
اُس کے احساس کو تم پیار سمجھ بیٹھے ہو
سادہ دل ہو تو عجب سادہ دلی ہے یہ بھی
خود کو ہر پھول کا حقدار سمجھ بیٹھے ہو
عین ممکن ہے کوئی طنز کیا ہو اُس نے
تم تو ہنسنے کو بھی اقرار سمجھ بیٹھے ہو
واہ کیا بات ہے اس شوق ِ مسیحائی کی
تندرستوں کو بھی بیمار سمجھ بیٹھے ہو
کچھ قدم اور بڑھانے سے ملے گا رستہ
راہ ِ پر پیچ کو دیوار سمجھ بیٹھے ہو
لذتِ وصل کے لمحات کرو گے برباد
تم جو بس روح کو معیار سمجھ بیٹھے ہو
کھیل اس شخص سے آغاز بھی ہو سکتا ہے
جس کو تم آخری کردار سمجھ بیٹھے ہو