چاند کیا ابر کی چادر سے نکل آیا ہے
ایک آوارۂ شب گھر سے نکل آیا ہے
اُس کو بھی چاہیے اب گھر سے نکل کر آئے
رزق جس کے لیے پتھر سے نکل آیا ہے
ایسا سناٹا ہے باہر کہ اسے دیکھنے کو
شور سارا مرے اندر سے نکل آیا ہے
اُس نے دستک کی سعادت نہیں بخشی مجھ کو
چاپ سنتے ہی مری, گھر سے نکل آیا ہے
کون اِس شہر میں زندہ ہے کہ پوچھے مجھ سے
کیسے زندہ تُو سمندر سے نکل آیا ہے
زخم سے بڑھ کے کہیں گہرا ہے کاشف غائر
وہ تعلق جو رفوگر سے نکل آیا ہے