کرامت بخاری ۔۔۔ حسرت و ناصر و عدم تو نہیں

حسرت و ناصر و عدم تو نہیں
پھر بھی چرچا ہمارا  کم تو نہیں

کوئی مقتل ہو یا کوئی دربار
سر ہمارا کہیں پہ خم تو نہیں

میرے ہاتھوں میں ہے قلم اب تک
ہاتھ میرے ابھی قلم تو نہیں

میں قلم کو زباں سمجھتا ہوں
ہاتھ میرے ابھی قلم تو نہیں

اے مسافر ترے مقدر میں
جامِ حسرت ہے جامِ جم تو نہیں

دفترِ دہر پڑھ کے دیکھ لیا
تم ہی تم ہو کہیں پہ ہم تو نہیں

ہے کرامت غزل میں اور بھی کچھ
صرف لہجے کا زیر و بم تو نہیں

Related posts

Leave a Comment