کاسہ اُٹھائے پھرتے ہیں خیرات کے لیے
کرنا ہے کچھ تو اب گزر اوقات کے لیے
پابند کر دیا ہے محبت کے کھیل نے
اب اِذن چاہیے ترا ہر بات کے لیے
کیا خوب جا نتا ہے طبیعت مری عدو
مجھ سے کمک وہ مانگے مری مات کے لیے
انکار کرتے کرتے اچانک پلٹ گیا
آمادہ ہو گیا وہ ملاقات کے لیے
صحرا بھی میرے ساتھ دعا میں ہوا شریک
اُٹھے ہیں ہاتھ جب مرے برسات کے لیے
پھر اس کے بعد وہ نہیں آیا کہیں نظر
شاہد ہمارا ساتھ تھا اِک رات کے لیے
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ ادا پریوں کی صورت حور کی آنکھیں غزالوں کی
ادا پریوں کی، صورت حور کی، آنکھیں غزالوں کی غرض مانگے کی ہر اک چیز ہے... -
ماجد صدیقی ۔۔۔ وہ چنچل جب سے میرا ہو گیا ہے
وہ چنچل جب سے میرا ہو گیا ہے خدا بھی میرے اندر آ بسا ہے وہ... -
محمد علوی ۔۔۔ ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں
ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں مگر پہچاننے والے کہاں ہیں کہیں پر سلسلہ ہے کوٹھیوں...