کاسہ اُٹھائے پھرتے ہیں خیرات کے لیے
کرنا ہے کچھ تو اب گزر اوقات کے لیے
پابند کر دیا ہے محبت کے کھیل نے
اب اِذن چاہیے ترا ہر بات کے لیے
کیا خوب جا نتا ہے طبیعت مری عدو
مجھ سے کمک وہ مانگے مری مات کے لیے
انکار کرتے کرتے اچانک پلٹ گیا
آمادہ ہو گیا وہ ملاقات کے لیے
صحرا بھی میرے ساتھ دعا میں ہوا شریک
اُٹھے ہیں ہاتھ جب مرے برسات کے لیے
پھر اس کے بعد وہ نہیں آیا کہیں نظر
شاہد ہمارا ساتھ تھا اِک رات کے لیے
Related posts
-
محسن اسرار ۔۔۔ گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا
گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا یہ کوئی وقت ہے تیرے کمال کرنے کا برا... -
احمد فراز ۔۔۔ زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے تو محبت سے... -
فانی بدایونی ۔۔۔ آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ بچ گئی آنکھ دل پہ آئی چوٹ دردِ دل...