جلیل عالی ۔۔۔ کدھر کھلتا ہے در کوئی

کدھر کھلتا ہے در کوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزرتا ہی نہیں ہے وقت
جبری چھٹیوں کا
ایک اک لمحہ صدی جیسا
گھریلو کھیل کوئی کب تلک کھیلے
کسی تقریب میں شرکت تو کیا
گھر سے نکلنے کی اجازت ہی نہیں ہے
اپنے پیاروں کے بھی چہروں سے
دل اکتانے لگے ہیں 
بھولتے جاتے ہیں سب آداب
جو تہذیب کا حاصل تھے
سرمایہ تھے 
خوش آہنگ بہتی زندگی کا 
فاصلہ تو فاصلہ ہے
صرف جسموں تک نہیں رہتا
اتر جاتا ہے روحوں میں
ملاقاتوں کے آئینے چِھنے تو
اپنی پہچانیں بھی کھو بیٹھے
گلوبی گائوں کا سپنا
ہمیں مہنگا پڑا کتنا
کوئی رستہ نہ جب پائے
تو آخر آگ کے دریا میں بھی 
انساں اتر جائے
کبھی ایسا نہ دن آئے!
دعا سے ہچکچائیں تو
چلیں آمین ہی کہہ لیں
کسی لمحے جھپکتی ہیں کہاں آنکھیں
بہت بے تاب ہیں
دیکھیں
کدھر کھلتا ہے در کوئی 
کہ اپنے سب ہُنر ہاری،
شکستِ زعم کی ماری ہوئی
بارِ دگرپرواز کی ہے منتظر دنیا
نئے آغاز کی ہے منتظر دنیا

Related posts

Leave a Comment