حسن عسکری کاظمی ۔۔۔ فریاد

فریاد
۔۔۔۔۔
پھر ان کی طرف قافلہ ایسا کوئی جائے
جو ہم پہ گزرتی ہے وہ آقاؐ کو بتائے

آقاؐ ہمیں اس نیند سے اب کون جگائے
اس ملتِ خوابیدہ کا غم کوئی تو کھائے

واعظ بھی بہت آپؐ سے رکھتا ہے محبت
بھٹکے ہوئے آہو کو مدینے میں تو لائے

آقاؐ کی طرح ہاتھ یتیموں کے سروں پر
رکھا ہو کسی نے ، کوئی آکر تو بتائے

مغرب نے ہمیں گھیر کے مارا مرے آقاؐ
خطرے میں گھرے ہم کوئی آکر تو بچائے

طوفانِ بلاخیز ہے جائیں کہاں آقاؐ!
اس ناؤ کو اب کون کنارے سے لگائے

فریاد ہے اے چارہ گرِ عالمِ بے پِیر
قندیل محبت ہی کوئی اب تو جلائے

آقاؐ ہمیں پھینکا گیا نفرت کی زمیں پر
اب کون ہے پستی سے ہمیں آکے اٹھائے

آقاؐ کی غلامی کا بھی رسماً رہا دعویٰ
یہ شیخِ حرم کیسے ہمیں اپنا بنائے

Related posts

Leave a Comment