چل رہی ہے بڑے انداز سے آہستہ خرام
لگ رہا ہے ترے کوچے سے صبا آئی ہے
یوں مہک اُٹھا ہے گھر کا میرے گوشہ گوشہ
جیسے اُٹھ کر ترے پہلو سے بہار آئی ہے
پھول چن کر ترے پہلو سے ابھی لائی ہے
کس نے دیکھا ہے کہ تارے بھی چمک اُٹھے ہیں
چاند بھی جیسے سرِ بام اُتر آیا ہے
ایک منظر جو تہہِ خواب تھا آسودہ کہیں
اب حقیقت کی طرح مجھ کو نظر آیا ہے
خواب در خواب پسِ عکس جو منظر ابھرا
لاکھ چاہوں بھی تو اب آنکھ نہیں کھل سکتی
Related posts
-
حامد یزدانی ۔۔۔ سوالیہ اندیشے
سوالیہ اندیشے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خزاں کی نئی اداسی کا رنگ کتنے برس پرانا ہے؟ زندگی مسکرا... -
خاور اعجاز ۔۔۔ امکان (نثری نظم) ۔۔۔ ماہنامہ بیاض اکتوبر ۲۰۲۳)
امکان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کو پیدا ہونے والی تاریکی روشنی کا مطالبہ کرتے ہُوئے گھبرا جاتی ہے... -
صفدر صدیق رضی ۔۔۔ محبت (ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023 )
محبت ۔۔۔۔۔ محبت کا مفہوم اگر جاننا چاہتے ہو تو اک شیر خوار اور معصوم بچّے...