شناور اسحاق … بازیافت

بازیافت
………..

آج کا دن
عجب جشن بر دوش دن تھا

اگر
بانوئے سر خوشی آنا چاہے
ملاقات کے کتنے اسلوب رکھتی ہے

جیسے  ۔۔۔
کسی نیلوفر کا بہایا ہوا تختہِ گل
کہیں نے بہ لب ہجر کے پاؤں سے جا لگے

یاکسی پدمنی کا ہوا میں اڑایا ہوا نامہ بر
اجنبی سر زمیں پر سوئمبر رچانے لگے

جیسے روتا ہوا طفل
یکبارگی ہنس پڑے

جیسے کھلیان کو گھورتے ابر پارے کی گدی پہ چنچل ہوا کا طمانچہ پڑے

یہ پورب نے آج
آفتابی شعاعوں پہ کیا اسم اعظم پڑھا تھا
کہ گلیوں میں بکھرے ہوئے سنگ ریزے
مرے سامنے پھول بنتے رہے

آج کتنے دنوں بعد میں نے
رسوئی میں حیران بیٹھی ہوئی،
سرخ ریشم میں لپٹی ہوئی سانولی کو
سرِ صحن
محرم اشارہ کیا

اپنی چھت  پر ٹہلتی پڑوسن نے
تالی بجا ئی ۔۔۔ ہنسی
اور "مکررعطاہو” کا آوازہ کستے ہوئے
قہقہہ وار زینے اُترتی گئی

ایک مانوس جھنکار پر
دل کی پتھرائی ایڑھی میں جنبش ہوئی
جیسے بھیتر میں سنتور بجنے لگا

آج کتنے دنوں بعد
دیوار ودر نے
پھر انگڑائیاں ٹوٹنے
اور
مہتابیاں چھوٹنے کا نظارہ کیا!!

(ہر اس دن کے نام ۔۔۔  جس دن کسی کی ملاقات حقیقی مسرت سے ہو)

Related posts

Leave a Comment