دل کو دل سے رہ ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک دن
اس نے فون پہ پوچھا:
’’کیسے ہو؟‘‘
میں ششدر حیران ہوا تھا
زندہ کیا امکان ہوا تھا؟
وہ پھر بولی:
’’میں نے پوچھا کیسے ہو
کیا ویسے کے ویسے ہو؟‘‘
لفظ کہاں تھے
جو دل کے ارمانوں کی تصویر بناتے
اور بتاتے
تنہائی کے اک گھنٹے میں
کتنے سال سما جاتے ہیں
روح میں کیسے درد پرانے در آتے ہیں
وہ پھر بولی:
’’ کیسے ہو
بولو، فیصل !اور بتاؤ
دس برسوں کا لمبا عرصہ کیسے گزرا ، کیونکر کاٹا‘‘
میری طرف سے پھر سناٹا
برکھا اپنے کومل قطرے بانٹ رہی تھی
اور مری آنکھوں میں میرا جلتا ماضی تیر رہا تھا
سچ کہتے ہیں
شب گزرے تو چاروں اور سحر ہوتی ہے
جن کو ٹوٹ کے چاہا جائے
ان کو خوب خبر ہوتی ہے
عزیز فیصل ۔۔۔ دل کو دل سے رہ ہوتی ہے (ماہنامہ بیاض لاہور مارچ 2022 )
