عقیدت
زہے صبا! کہ ہے تیرا گزر مدینے میں
مرا بھی حال وہاں عرض کر مدینے میں
فلک پہ ہے جو مقام ان کا وہ خدا جانے
ہے اس زمیں پہ محمدؐ کا در مدینے میں
حضورِ سیدِ کونین مجھ سے پہلے مری
ہے کیا نصیب کہ پہنچے خبر مدینے میں
مدینہ آئینۂ روز و شب ہے اور یہ زیست
ہے کیا ہی خوب کہ ہو خود نگر مدینے میں
نہ بے مراد رہوں میں نہ در بدر ہی پھروں
جو عمر اُن کے ہو در پہ بسر مدینے میں
خیالِ طیبہ کہاں میرا انہماک ہے کیا
مدینے ہی سے ہیں یہ دل نظر مدینے میں
وہی تتمۂ دوش اور بِنائے فردا بھی
ہے دینِ حق کا جو عہدِ ظفر مدینے میں
ملا ہے گوش و نگہ کو کہاں؟ تقدس وہ
ہے جیسی عفتِ سمع و بصر مدینے میں
ہے شاہد اِس پہ بھی اسریٰ بعبدہ لیلا
ہے ایک اور علو نقش گر مدینے میں
کہ توڑ دے گی وہ ہر ایک بت کا سر آخر
جو پہلی زد پڑی طاغوت پر مدینے میں
نقوشِ یثربِ کنتم علی شفا حفرہ
کیے ہیں عشق نے زیر و زبر مدینے میں
منور ایسی ضیا سے ہوئی حیات جسے
سلام کرتے ہیں شمس و قمر مدینے میں
محبت اس کی جہاں ساز ہوگی اتنی ہی
کہ دل لگائے کوئی جس قدر مدینے میں
وفا ہو عہدِ علیکم بسنتی پھر یوں
تھے جیسے عہد و وفا راہبر مدینے میں
صدائے لب پہ بھی لاترفعوا کی حد ہے یہاں
نہ صوتِ دل بھی ہو صوتِ دگر مدینے میں
زدِ ندامتِ عصیاں سے خود بکھر گیا ہوں
کروں گا نظمِ سخن کیا دُرر مدینے میں
گدائے کاخِ کرم جائے ، کیوں کہیں آصف!
ہے آستانِ شہِ بحر و بر مدینے میں