علی اصغر عباس … جہالت کی کھیتی!

جہالت کی کھیتی!
………………..
فراغت کی چلمن سے لپٹی اداسی
جو ساکن خموشی میں صوتی ردھم ڈھونڈتی ہے
سماعت کے در پہ
صداؤں کی دستک نے
خوابوں کو توڑا
تو آنکھوں نے سب نیندیں
بیزار لمحوں کی آتش میں جھونکیں
اچانک سے بیدار ہونے کا ناٹک رچایا
کہ اذنِ تکلم کو ترسی زبانوں پہ
کانٹے پڑے ہیں
گماں ہے
گیانی نے جب آبِ گریہ سے
قُفلِ فراست کو دھویا
تو دیکھا کہ دانش کی کنجی لگی ہے
سوالوں کے زنداں میں
قیدی کبوتر بھی پر جھاڑتے ہیں
کہ وہ بھی جوابوں کا چوگا چنیں
یوں ہے پر تخمِ عرفان
دیمک زدہ ہے
جہالت کی کھیتی ہری ہے
جہاں جھاڑیوں میں چھپے سانپ
ڈسنے کو تیار ہیں!

Related posts

Leave a Comment