علی اصغر عباس ۔۔۔ سوختہ جاں

سوختہ جاں
۔۔۔۔۔۔۔
گرفتِ شب سے نکلتے ہوئے جو سورج سے
سوال پوچھا
کہ راتیں کہاں گزارتے ہو
سنہری چاندنی کی جھالریں ستاروں سی
رداِےگردوں میں چپ چاپ
ٹانک جاتے ہو
کنارِ بامِ افق پر صلیب پر لٹکا
اندھیرا
عالمِ ہو کی دراز باہوں میں
کبیدہ وقت  کی سرگوشیوں میں دم توڑے
ہماری  رات کی تنہائیوں کے موسم میں
نہالِ تن پہ اذیت کے پھول کھلتے ہیں
لبوں کی شاخ پہ
برگِ صداےکرب کے ساتھ
کسی کی یاد بھی یوں بور بور جھڑتی ہے
کہ خاک زاد بدن بھی غبار ہوتا ہے
خزاں گزیدہ درختوں کی برہنہ شاخیں
مسافرانِ محبت کو یخ  ہواؤں سے
بچا نہ پانے کے دکھ ہی میں سوکھ جاتی ہیں
پرند روح کا
اندو ہ گیں فراق کا گیت
ملالِ نَے میں ڈبو کر حزیں بناتا ہے
وقوفِ بابِ قفس میں ہجوم یادوں کا
کلال خانۂ غم میں شغب مچاتا ہے

تو سن رسیدہ دکھوں کی بھی نیند ٹوٹتی ہے
ادھورا خواب مکمل کبھی نہیں ہوتا
تپش سے کھولتا، جلتا بدن حرارت سے
عذاب ِنار کے رختِ تپاںمیں۔۔۔
تھا رستخیز مکمل سنہری دھوپ کے ساتھ
نہ بولا کچھ بھی دنوں کی کلید لہراتا
کہ جس کے چھلے میں شپ ناکیاں نہیں ہوتیں
وہ چوب دستِ زمانہ شہاب دست بھی ہے
کہ جس کی آگ اگلتی ہوئی ہتھیلی پر
خطِ نصیب، دہکتا ہوا الاؤہے
مرے ستارے بھی ایندھن ہیں اس الاؤکا
سلگتے جاتے، مجھے راکھ کرتے جاتے ہیں

Related posts

Leave a Comment