کرارے نوٹ
چھن چھن بولتے سکّے ،
شیئر، ہُنڈی،
چمکتی میز، الماری،
نگر کے سیٹھ، افسر اور پھر ان کے حواری،
کلرکوں کی زبان پر موٹے موٹے ہندسے جاری،
قلم بھاری۔
فضا میں بینک کی ہر سمت اک سنجیدگی طاری۔
نہ جانے کیسے چوکیدار کی آنکھیں بچا کر،
نیم خبطی اک بھکاری،
کب بڑے صاحب کے کمرے میں در آیا،
لگا تھا پیٹھ سے جو پیٹ، دکھلایا۔
کہا:
سرکار مل جائے اگر اک نوٹ دس کا،
میں چنے لے کر چبا لوں ،
پیٹ کا دوزخ بجھا لوں ۔
جواباً گونج اٹھی قہقہوں سے بینک کی بلڈنگ وہ ساری،
کھل گئی جیسے کمانی…..
جی!
سمندر میں نہ تھا پینے کا پانی!!!