مُرید کی بیوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیکے دار بھلے کو آئے
نکلے دھوپ تو "جاڑا” جائے
صبح کو پورا "مرغا” کھائے
شام سے پھر دوزخ بھڑکائے
ہم اس جنت سے بھر پائے
دودھ، ملائی، ماوا، مسکا
اس مہنگے میں کس کے بس کا
متوالا گنّوں کے رس کا
چائے کی لت انڈوں کا چسکا
"کور” بنا جو، حلق سے کھسکا
آئے پیٹ پجاری بن کر
جم جائے بیماری بن کر
مذہب کا بیوپاری بن کر
قرقی کی تیاری بن کر
"پھکٹ چند گردھاری” بن کر
موٹا تازہ، ہٹّا کٹّا
گاما سے تھوڑا سا بٹّا
ممدو کی بیوی سے سٹّا
ہی ہی، ہا ہا، چیل جھپٹّا
کیا جانے؟ "کب کھائے کھٹّا”
اے انگھڑ صحرائی، روڑو!
ہل میں الٹا اونٹ نہ جوڑو
چھیلا خاں ! بیلوں کو موڑو
"کوٹوار کی” چندیا توڑو
اس "آلھا اودل” کو چھوڑو
سالے سے اک بھیلی لاؤ
دونوں بیلوں کو کھلواؤ
خالص گھی کی ناریں، جاؤ
جس جا دانہ بھوسہ پاؤ
قیمت ! یہ مونچھیں ! شرماؤ
پِیر تمھارا ہے، تم جانو
ایسوں کی عظمت پہچانو
جو مانگے، دو، بے ایمانو!
پھر کہنا: "چلنے کی ٹھانو”
مجھ کو کیچڑ میں مت سانو
ممدو کی بیوی پر تہمت
ہمسایوں کی گندی عادت
عورت ہے شہکارِ فطرت
شہکارِ فطرت ہے رغبت
پیروں کو زیبا ہے، تم مت۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلیاتِ شاد عارفی
مرتبہ: مظفر حنفی
مطبوعہ: مارچ ۱۹۷۵ء
نیشنل اکیڈمی، دریا گنج، دہلی