گم شدہ اذان کے انتظار میں نظم… اسحاق وردگ

گم شدہ اذان کے انتظار میں نظم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہر کی قربت میں آباد گائوں
(جس کا فطرت سے ازل کا رشتہ
ابھی ٹوٹا نہیں) سے آتی ہوئی
ضعیف بابا جی کی آواز میں
صبح کی اذان کی پہلی گونج
شہر کی فضائوں میں جلوہ افروز ہوئی
تو زمین کے سینے پر وقت نے کروٹ بدلی
باباجی نے جسمانی ضعف کے باوجود
اپنی روح سے کشیدکیے گئے طلسم سے
سانس کا زیر وبم قائم رکھا اور
آنسوئوں کی سوغات میں
دل سے لب تک اپنی آواز کو
با وضو کیا
(تاکہ اذان کی صوتفرش سے عرش تکمعطل رابطوں کو بحال کرسکے)
اور مسجد سے گائوں
اور گائوں سے شہر
تک کی پاکیزہ روحوں کے قبیلے
کو میسیج دے سکے
کہ "سکونِ دل۔۔۔ نیند سے بہتر ہے”
وبائے عام میں نیم شب کو یہ اذانِ خاص
تنہائی اور خوف کی
چیخ سے بھاگنے والے
بے روح جسموں کی پناہ گاہ بنتی
صرف یہی نہیں اس اذان کے لہجے
میں حبشی شہزادے کی تاثیر کا رنگ بھی
دل کے نور کدے میں نظر آتا
اور سورج کواین او سی (NOC) ملتا
کہ وہ زمین زادوں پر
روشنی کے دریچے کھول دے
باباجی جن کی جوانی تہجد کی راہداریوں
میں خدائے کُن سے آنکھ مچولی
کھیلتے ہوئے گزری
جیسے قطرہ سمندر سے جدا ہونے پر
سمندر ڈھونڈنے نکلےاور صحرا کی اور
عرفان کے منظر میں جذب ہوجائے
باباجی جنھوں نے اپنی تخلیق کے بعد
کان میں پہلی اذان سنی تو
آخری اذان تک ۔۔۔ پہلی اذان کی لاج
رکھتے ہوئے تمام سانسوں کی
مسافت کو عبادت
کی حد میں شامل کیا
اور مسافت اس مجذوبانہ اسلوب
میں طے کی ۔۔۔کہ ذات کو مسجد
کی محراب سمجھا
اور کائنات کو مسجد کے معنی میں برتا

ہاں وہی باباجی جن کے چہرے پر
مراقبے کا سکون درج ہوتا تھا
جن کی دعائوں کی تصدیق
سے گھر کے خواب تعبیر آشنا ہوتے
جن کی مبارک لفظیات نے درودیوار کی قسمت کے
نامبارک فیصلوں پر خطِ تنسیخ کھینچے
جن کے ورثے میں دنیا سے بے نیازی
کے جواہرات کے
سوا کچھ نہ تھا

باباجی نے راہِ زندگی
کی گھٹڑی میں صرف خدائے کُن
کے شہر میں چلنے والے رزقِ حلال
کے سکے باندھے اور یہ تعویز باندھا
جس پر لکھے گئے مقدس کلمات
کا مفہوم یہی تھا
کہ اہل و عیال محض فتنہ ہیں
کہ اہل و عیال کی خوشی کو حرام کے سِکوں
سے خریدنے کا مطلب خدائے کُن
کی ناراضی خریدنا ہے
ہاں وہی خدائے کن جس سے آنکھ مچولی
کھیلتے کھیلتے
ضعیف باباجی ایک بے نور صبح
اذان سے پہلے پہلے
زمین کی خاک اوڑھ کر
کہانی سے نکل گئے
زمین اور آسمان کے رابطے
بحال کرنے والی اذان زمین میں جذب ہوگئی
ہاں وہی زمین
جس کی خاک سے
ایک راستہ آسمان کو بھی جاتا ہے
اور عمر بھر کی اذان کا
جواب ملتا ہے
تب ایک پردہ گرتا ہے
اور دوسرا پردہ اٹھتا ہے
اور مقدس روحوں کی
خدائے کن کے ساتھ
عمر بھر کی
آنکھ مچولی ختم ہوجاتی ہے۔

Related posts

Leave a Comment