فیس بُک کے آئینے میں
(حامد یزدانی کے لیے ایک نظم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حامد یزدانی!
اے حامد یزدانی!
تم کس خواب نگر میں اپنا دل کش ماضی کھوج رہے ہو
ماضی تو ماضی ہے — اپنا آج بھی ماضی ہو جائے گا
نئے دنوں میں کھو جائے گا
نئے دنوں میں ایک نیا کیا خواب نگر آباد کروگے؟
خواب نگر—تو ایک کھنڈر ہے وحشت کا،
وحشت میں رکھی دانائی کا
دہشت کا، دہشت میں عریاں تنہائی کا
خواب نگر جو خواب ہے دل سے سودائی کا
کیا تم بھی سودائی ہو؟
دُور دیس میں کس کی یادیں؟
تیری اک تصویر کی روشن بینائی سے جھانک رہی ہیں
میں تو خیر ازل کا پاگل، پاگل پن میں بھول گیا تھا
وہ چہرے، وہ روشن چہرے
جو روشن بینائی نے سینے میں سینت رکھے تھے
آخر اک دن بجھ جائیں گے —
بجھنا ہی قسمت تھی اُن کی!
لیکن اب سے برسوں پہلے
کیوں ہر ایک مکاں کا دروازہ ہم پر کھل جاتا تھا؟
کیوں لاہور کی گلیاں؟
کیوں آباد مکانوں میں آباد مکیں؟
آخر کیوں؟ — اپنے لگتے تھے
بالکل اپنے لگتے تھے
کیوں ہر روزن و دَر سے قربت جاگ اُٹھتی تھی؟
اُن میں ہنستے بستے چہرے،
اُن کی خوشیاں، اُن کے دُکھ، اُن کی آشائیں
سب کچھ اپنا لگتا تھا
اور پھر اک گھر کا دروازہ
میرے ہاتھ کی دستک سے جب کھل جاتا تھا
میری ماں کے چہرے جیسا اک چہرہ
اپنے بوڑھے ہاتھوں کی تھپکی سے
اپنے گھر کی بوڑھی رہ داری سے گھر تک لے آتا تھا
حامد یزدانی! — اے حامد یزدانی!
کیا یا دہے تم کو؟
وہ چہرہ تو بالکل میری ماں کا چہرہ تھا ۔۔۔
یا شاید
مائیں ساری ایک ہی جیسی ہوتی ہیں
حامد یزدانی! معلوم نہیں—کچھ بھی معلوم نہیں
تم ہی بتائو!
مائیں ساری ایک ہی جیسی کیوں ہوتی ہیں؟
آخر اتنی جلدی بوڑھی کیوں ہو جاتی ہیں؟
اور اَبد کی چادر اوڑھے گھر کی چوکھٹ سے باہر
قبروں کے بے روزن و دَر ویران مکانوں میں کیوں
سو جاتی ہیں؟
بوڑھے ہاتھ کہ جن کی لرزش میں
ایک دُعا ہوتی ہے — ایک طویل دُعا
کیوں کھو جاتی ہے؟
حامد یزدانی! کیا یاد ہے تم کو؟
مئی جون کا گرم ایّام سلگتا سورج
اپنے سروں پر آتا تھا تو کیوں ٹھنڈا ہو جاتا تھا؟
تارکول سے تپتی سڑکیں بلکہ پگھلتی سڑکیں
قدموں میں جب ہوتی تھیں تو جسم و جاں پر
مِہرفشانی کیوں جاگ اُٹھتی تھی؟
اور یہی لاہور کی گلیاں، برسوں پہلے
کیوں سب کی سب اپنی لگتی تھیں؟
حامد یزدانی!—اے حامد یزدانی!
آنکھوں میں وہ خواب جو تم نے سینت رکھے تھے
تیری اس تصویر کی آنکھوں میں تو اب بھی جاگ رہے ہیں
لیکن ان خوابوں سے آگے دیکھو
آگے بھی اک منظر ہے
جس میں، مَیں ہوں اور تمھاری اس تصویر کی روشن آنکھیں ہیں
شاید مَیں کچھ بھول رہا ہوں!
شاید تم کچھ بھول گئے ہو!
شاید؟—لیکن—!!
آخرکب تک اس تصویر میں قید رہو گے؟
باہر نکلو — دیکھو!
تاریکی نے کتنے سناّٹوں کا گھیرا ڈال دیا ہے
شہر کے اندر رکھ کر، مجھ کو، مجھ سے دُور نکال دیا ہے
یوں لگتا ہے
گلیوں اور مکانوں کے سب روزن و دَر سے
دہشت جھانک رہی ہے
تپتی جھلستی سڑکوں سے اک وحشت جھانک رہی ہے
حامد یزدانی!—کچھ تم ہی بتائو!
برسوں پہلے کا وہ پورا شہر کہاں ہے؟
شاید — شاید ،برسوں پہلے کا مَیں پورا شہر
گنوابیٹھا ہوں
چلتے چلتے
بے مہری کے ایک آسیب زدہ ماحول میں آ بیٹھا ہوں
سوچ رہا ہوں — سِہماسِمٹا
بوڑھی رہ داری کے اندر
بوڑھے ہاتھوں کی لرزش میں
کوئی ایک دُعا ہوتی تھی
ایک طویل دُعا—!!