ڈھکوسلے
پانی بھر کر لائی ناری سر پر بوجھ اُٹھا
مٹکے پر بیٹھا کوّا اور مٹکا دیا گِرا
سیج پہ بیٹھی عورت دیکھے مورکھ کا چہرا
آنکھوں میں لہراتے بادل ! دِل کی پیاس بجھا
ایک ستارہ اُفق کنارے دیکھے ہے رَستا
کھڑکی کھول کے بیٹھی جوگن پردہ ذرا ہٹا
لڑکی ڈھونڈ رہی تھی کچھ دِن سے جنگل میں جا
ساون کی پہلی بارش نے رستہ دیا دِکھا
گوری نے ساجن کی خاطر دامن لیا جلا
ہنڈیا چولہے پر رکھی اور پنکھا دیا چلا