سلام بہ حضورِ امامِ عالی مقام

یہی نہیں کہ فقط کربلا حسین سے ہے
حسین سے ہیں محمد، خدا حسین سے ہے

کسی نے پوچھ لیا کس کے دم سے ہے اسلام
قضا و قدر نے جھک کر کہا: حسین سے ہے

ہزار چشمہء آبِ رواں ہیں دنیا میں
مگر یہ پیاس کا دریا بہا حسین سے ہے

یہ مرغزارِ محمد، یہ لالہ زارِ علی
شہادتوں کا یہ گلشن ہرا حسین سے ہے

یہ اپنی منزلِ اول پہ لٹ چکا ہوتا
رواں دواں جو ہے یہ قافلہ حسین سے ہے

اگرچہ بیعَتِ باطل قبول دل سے نہ ہو
مگر یہ حوصلہ انکار کا حسین سے ہے

حسین وارثِ آدم، حسین وارثِ نوح
خدا سے ربط ہے گر رابطہ حسین سے ہے

یقیں کے باب میں کافی ہے اک یہی نُکتہ
خدا شناس ہے گر آشنا حسین سے ہے

وہ جس کے وِردِ زباں ہو حدیثِ مین٘یت
وہ شہرِ علم کو پہچانتا حسین سے ہے

یہ مہر و ماہ، یہ ارض و سما، یہ لیل و نہار
یہ بزم وہ ہے جو آراستہ حسین سے ہے

مری طلب سے سِوا نعمتیں ملی ہیں مجھے
کھلا ہوا کوئی بابِ عطا حسین سے ہے

کسی یزید کی بیعَت یہ کر نہیں سکتی
کہ میری قوم کا عہدِ وفا حسین سے ہے

وہ نوکِ نیزہ سے رکھے ہوئے ہیں سب پہ نظر
سو غم زدوں کو بڑا حوصلہ حسین سے ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.Hadees-e- minniyat. i.e

حسین ُ مِن٘ی و انا من الحسین

Related posts

Leave a Comment