عقیل رحمانی ۔۔۔ مرثیہ

کرنوں کو جیسے ڈھانپ دے بڑھ کر شبِ سیاہ
سورج کے منہ پہ پڑ گئی یوں موت کی ردا
شعلوں کا روپ دھار کے چلنے لگی ہوا
صحرا کی ریگ بن گئی دامن تنور کا

جھونکے ہوا سے آنے لگے خوں کی باس کے
کوثر کے وارثوں پہ بھی پہرے تھے پیاس کے

حُرؓ اطلس و حریر کے رنگِ جمیل سے
سمجھا بلا کی ریگ کو بہتر شنیل سے
اک سانس کی بھی بھیک نہ مانگی بخیل سے
ٹکرا گیا ہے موت کی اونچی فصیل سے

دہلیزِ غم کا تیرے کرم سے وقار ہے
اب بھی گلوں میں تیرے لہو سے نکھار ہے

صحرا سے اب شباب کے گلشن میں آیئے
ہر ہر لڑی میں خون کی بوندیں سجایئے
زخموں کے پھول پھول سے سہرا بنایئے
بڑھ بڑھ کے آج تیغ سے سینے ملایئے

دیکھا تو رُخ سے موت کے سرخی اتر گئی
قاسمؓ کے واسطے سجی تیروں کی سیج تھی

لہرا رہا ہے نور کی طاقت کا وہ علم
کونین میں سحر کی قیادت کا وہ علم
نرغے میں دشمنوں کے صداقت کا وہ علم
جنت کے وارثوں کی امامت کا وہ علم

جس کو عدو نہ کاٹ کے بازو جھکا سکے
تھامے ہوئے تھا حوصلہ عباسؓ کا اُسے

اک طفلِ شیر خوار دو عالم پہ چھا گیا
تازہ لہو سے قصرِ صداقت سجا گیا
ظالم کا تیر پیاس کی شدت بجھا گیا
اصغرؓ ہمک کے موت کے جھولے میں آگیا

آہِ رباب سن کے فضا پاش پاش تھی
ہاتھوں پہ شہہؓ کے ننھے مجاہد کی لاش تھی

یہ کس نے موڑ دی ہے کلائی ممات کی
پتھرا گئی ہیں کس لیے آنکھیں حیات کی
ڈوبی ہے نبض کس کے لیے کائنات کی
کیوں رو رہی ہیں آج بھی لہریں فرات کی

صحرا کو، کون خون سے گُل رنگ کر گیا
پھوپھی پکارتی تھی کہ اکبرؓ کدھر گیا

نوحہ ہوا پہ لکھ گئیں کرنوں کی انگلیاں
گونجی فضا میں چارسُو سورج کی سسکیاں
اب تک تمھاری یاد میں روتی ہے کہکشاں
اشکوں سے پُر ہے دیکھ لے تاروں کا کارواں

کرب و بلا کی ریگ ہے اب بھی لہو لہو
غم میں مرے حسینؓ کے ماتم ہے چار سُو
نازاں ہے جس پہ صبر و قناعت وہی حسینؓ
جس پر ہوئی ہے ختم عبادت وہی حسینؓ
نیزے پہ جس نے کی ہے تلاوت وہی حسینؓ
ہے جس کے سر پہ تاجِ شجاعت وہی حسینؓ

جس نے سرِ غرور کو نیچا دکھا دیا
پائندہ باد پرچمِ خونی حسینؓ کا

Related posts

Leave a Comment