مرنا ہے تو بے موت نہ مرنا بابا
دم سادھ کے اس پُل سے گزرنا بابا
سنتے ہیں کہ ہے موت سفر کا وقفہ
اس پار ذرا بچ کے اترنا بابا
۔۔۔
موتی نہ تھے دریا میں تو ہم کیا کرتے
آنسو ہی نہیں آنکھ میں غم کیا کرتے
ہاتھ آوے کھوکھلے لفظوں کے صدف
گہرائی کی رُوداد رقم کیا کرتے
۔۔۔
تقدیر پہ الزام نہیں دھر سکتے
خاکے میں سیہ رنگ نہیں بھر سکتے
ہر لوح پہ تحریر کہ جینا ہے حرام
آواز لگا دو کہ نہیں مر سکتے
۔۔۔
ہاتھوں میں لیے تیغ و سناں بیٹھا ہے
ہمزاد نہیں دشمنِ جاں بیٹھا ہے
جس جا بھی متاعِِ فکر لے کر بیٹھو
لگتا ہے کوئی اور وہاں بیٹھا ہے
۔۔۔
محدود فضاؤں میں کدھر جاؤں میں
مجلس میں کہیں گھٹ کہ نہ مر جاؤں میں
لازم ہے پَر وبال سنبھالے رکھنا
ایسا نہ ہو آپے سے گزر جاؤں میں
۔۔۔
ٹوٹے ہوئے پَر چھوڑ گیا ہے راہی
جلتا ہوا گھر چھوڑ گیا ہے راہی
منزل پہ پہنچنا تھا اسے عجلت میں
رستے میں یہ سر چھوڑ گیا ہے راہی
۔۔۔
یہ موسمِ گُل اور یہ لُو کے جھکّڑ
پُر نور فضاؤں میں یہ کالے اندھڑ
اس چاند کی چودہ کو لگا ہے کرفیو
چلنے لگی بندوق کہیں تڑ تڑ تڑ
۔۔۔
بھوکا تھا مگر چھوڑ دیا روٹی کو
کس ڈھنگ سے سمجھاؤں میں اپنے جی کو
غلّے کے تقاضے پہ الجھ کر آخر
ہمسائے نے پھر پیٹ دیا بیوی کو
۔۔۔
چینی کہیں غائب ہے کہیں گھی غائب
غلّہ کہیں عنقا کہیں ہلدی غائب
پیسہ ہو اگر پاس تو اِک نسخہ ہے
اخبار نہ پڑھیے تو غریبی غائب
۔۔۔
لفظوں میں نہ وسعت ہے نہ گرمی نہ عمق
ترسیل کو ہر گام پہ سو سو خندق
کہنے کو بہت، اور کہا جائے نہ کچھ
جذبہ ہے کہ احساس میں پھولی ہے شفق
۔۔۔
یہ آن یہ تیور یہ جبینوں کے بل
حالاں کہ تم آگے ہو سفینوں کے بل
اک ہم ہیں کہ امواجِ بلا خیز میں ہیں
اور پھر بھی بڑھے آتے ہیں سینوں کے بل
۔۔۔
یکساں ہیں مرے واسطے جینا مرنا
کیوں سر پہ احسان کسی کا دھرنا
اے موت مرا ہاتھ نہ تھام، آگے بڑھ
میں ڈوب رہا ہوں تو تجھے کیا کرنا
۔۔۔
سچ ہے کہ ابھی عمر پڑی ہے مجھ کو
دُھن زود نویسی کی بری ہے مجھ کو
ڈرتا ہوں قلم کو بھی مرے چاٹ نہ جائے
احساس کی دیمک جو لگی ہے مجھ کو
۔۔۔
وحشت کی ذرا چوٹ پڑی، ٹوٹ گئی
زنجیر کی ایک ایک کڑی، ٹوٹ گئی
انگڑائی ابھی لی تھی رہائی پا کر
اتنے میں وہ موتی کی لڑی ٹوٹ گئی
۔۔۔
جس روز بھی دھوکے سے چڑھا لیتا ہوں
احساس کی لَو اور بڑھا لیتا ہوں
اس طرح بہکتا ہوں کہ اپنے اوپر
شیطان سے لاحول پڑھا لیتا ہوں
۔۔۔
ثانی تھے نہ دارا و سکندر میرے
ہوتی یہ زمیں اور سمندر میرے
افسوس کہ یلغار کو جب اٹھتا ہوں
ہنستا ہے کوئی جسم کے اندر میرے
۔۔۔
آفت ہے یہ الحاد مظفرؔ صاحب
خود ساختہ بے داد مظفرؔ صاحب
مشکل میں خدا کو یاد کرتے ہیں لوگ
ہم کس کو کریں یاد مظفرؔ صاحب
۔۔۔
گر خود کو سنبھالوں نہ میں آنسو کی طرح
یہ فن بھی ہے تاثیر میں جادو کی طرح
دن رات گھمائے مجھے صحرا صحرا
خوشبوئے سخن، نافۂ آہو کی طرح
۔۔۔
بھڑکی ہوئی اِک مشعلِ غم رکھتا ہوں
شبنم کی طرح دیدۂ نم رکھتا ہوں
دُکھتی ہوئی رگ اپنی چھپا لے دنیا
مجبور ہوں کاغذ پہ قلم رکھتا ہوں
۔۔۔
شعلہ ہے ، اُسے چوم رہا ہوں پھر بھی
خالی ہے سُبو، جھوم رہا ہوں پھر بھی
وہ مجھ سے گریزاں ہے ہوا کی مانند
پنکھے کی طرح گھوم رہا ہوں پھر بھی
۔۔۔
پندارِ خودی توڑے ہوئے بیٹھا ہوں
تخلیق سے منھ موڑے ہوئے بیٹھا ہوں
احباب میں شہرہ مری پرواز کا ہے
حالاں کہ میں پَر جوڑے ہوئے بیٹھا ہوں
۔۔۔
کہنے کے لئے صبر تو کر جاؤں گا
لیکن یہ گھٹن بڑھی تو مر جاؤں گا
فطرت سے میں بادل ہوں برس جانے دو
پھر جھیل کے اس پار اتر جاؤں گا
۔۔۔
اس دھوپ کو دیوار سے ڈھل جانے دے
مغرور کے ارمان نکل جانے دے
پھر ہاتھ لگاتے ہی نہ بل ہوں گے نہ وہ
رسی کو ذرا ٹھیک سے جل جانے دے
۔۔۔
ہم درد ملے تو درد دونا ہو گا
بستر بھی جہنم کا نمونا ہو گا
بے کاری کا یہ زخم یہ کھجلاتے ہاتھ
بجلی کے کھلے تار کو چھونا ہو گا
۔۔۔
نیچا رکھنا مزار اونچا رکھنا
جتنا چا ہو حصار اونچا رکھنا
تسلیم ہر اِک جرم، مگر میرے لیے
اوروں سے صلیب و دار اونچا رکھنا
۔۔۔
ملنا ہو جسے اپنے پرستاروں سے
دروازے سے رکتا ہے نہ دیواروں سے
وہ موت ہو یا صبح مگر ہے کوئی
آتی ہے قدم کی چاپ اندھیاروں سے
۔۔۔
ماحول سے جس وقت نہیں کھاتی میل
اس وقت دکھاتی ہے انا کیا کیا کھیل
سنگینیِ حالات سے جھکتی ہے مگر
جس طرح کسی پُل سے گزر جائے ریل
۔۔۔
گھنگھور گھٹا ٹوپ اندھیرا اور موت
ہر سمت وہی آہنی گھیرا اور موت
گھبرا کے جو اندر سے چٹخنی کھولی
در آئے بہ یک وقت سویرا اور موت
۔۔۔
دیکھا کہ ہر اک شخص لہو میں تر تھا
اور بحرِ شجاعت مرا کف آور تھا
پھر آنکھ کھلی، چونک پڑا، یا حیرت
خود اپنی ہی گردن پہ مِرا خنجر تھا
۔۔۔
ہر چند کہ منظور نہیں ہے آرام
آمد میں رکاوٹ ہے نہ جذبہ ہے خام
لیکن وہ بہت دنوں کے بعد یاد آئے ہیں
فی الحال تو اے فکر شعر، تجھ کو سلام
۔۔۔
صحرا مجھے ہر گام پہ زک دیتا ہے
منزل مرے ہاتھوں سے جھٹک دیتا ہے
لیکن مرے پاؤں جمنے لگتے ہیں جہاں
شفقت سے مری پیٹھ تھپک دیتا ہے
۔۔۔
گھیرے میں لیے ہوں تجھے ہالا بن کر
لپٹا ہوں ترے پاؤں سے چھالا بن کر
اے روشنیِ طبع جھجکتی کیوں ہے
ظلمت ہوں، مجھے کاٹ اجالا بن کر
۔۔۔۔