جانِ عالم کی سواری ۔۔۔ غافر شہزاد

جانِ عالم کی سواری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں اس شہر میں اکٹھے آئے تھے۔دونوں لکھاری تھے۔افسانے لکھتے اور شاعری کرتے۔ آغاز دونوں نے شاعری سے کیا تھا مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ شاعری کے ساتھ نثر نگاری بھی ضروری ہے۔اس لیے انہوں نے تنقید اور افسانہ نگاری بھی شروع کر لی۔اسلم شہیدی اور جانِ عالم دونوںکو جہاں بھی جانا ہوتا ،اکٹھے جاتے۔ شہر کی ادبی محفلیں ہوتیں، تو ان کے افسانوں اور شاعری کا تذکرہ ہوتا، مشاعرہ ہوتا تو ان کے خوبصورت کلام کو نظر انداز کرنا مشکل ہو جاتا۔ یہ بات درست تھی، بڑے شہر میں جگہ بنانے کے لیے بہت زور لگانا پڑتا ہے اور یہ زور ایک طریقے اور سلیقے سے لگایا جائے تو اس کے نتائج بہتر اور جلد برآمد ہوتے ہیں۔بڑے شہر میں اپنی جگہ بنانے کے لیے انہوں نے سائنسی بنیادوں پر سوچنا شروع کر دیا۔ انہوں نے دیکھا کہ اگر کسی اخبار کے ادبی صفحہ پر کوئی جگہ مل جائے تو ادیبوں اور شاعروں میں ان کا نام اور اہمیت مسلمہ ہو جائے گی۔ مگر جانِ عالم نے اس سے اتفاق نہ کیا، اس لیے کہ وہ صرف ادیبوں اور شاعروں تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ یہ طبقہ ایک تو شہر میں کوئی زیادہ پسند نہ کیا جاتاتھا اور دوسرا بہت ہی کم تعداد میں یہ لوگ شہر میں موجود تھے۔ اسلم شہیدی کو لکھنے پڑھنے اور جائز طریقے سے اپنا مقام بنانے کا خیال تھا مگر جانِ عالم کو بہت جلدی تھی۔ جانِ عالم نے گائوں سے اپنا موٹر سائیکل شہر میں منگوا لیا۔اب دونوں کے لیے بہت آسانی ہو گئی۔ جہاں جانا ہوتا، دونوں پہنچ جاتے۔
اسی تگ و دو میں ایک عشرہ گزر گیا۔ اب جو پیچھے نظر دوڑاتے ہیں تو سفر کی اڑتی ہوئی گرد میں طے کی جانے والی منزلوں کے ہیولے سے نظر آتے ہیں۔ اسلم شہیدی تو بہت مطمئن اور خوش تھا اور اپنی رفتار سے اسے کوئی گلہ نہیں تھا مگر جانِ عالم کا خیال تھا کہ ان کی درست سمت ہونے کے باوجود وہ شہرت اور دولت میں وہ مقام نہیں حاصل کر پائے، جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔دونوں انار کلی میں رات گئے تک بیٹھے رہتے۔ مستقبل کے خواب بنتے رہتے۔جانِ عالم نے ایک اخبار کے ادبی صفحے پر کالم بھی لکھنا شروع کر دیا۔ اور اس کے ساتھ اس نے ادارتی صفحہ پر بھی ہفتے میں ایک کالم کا آغاز کر لیا۔ دونوں کالموں کے لیے اخبار سے اسے کچھ نہ ملتا تھا۔ لیکن تسلسل سے کالم نگاری کے سبب اس کا نام کالم نگاروں میں آنا شروع ہو گیا۔ اس نے پریس کلب بھی بیٹھنا شروع کر دیا۔ وہاں اس کے رابطے دیگر صحافیوں سے ہوئے اور پھر ایک دن انہی صحافیوں کے جلو میں جانِ عالم گورنر ہائوس جا پہنچا۔ یہ ایک سرکاری تقریب تھی جس میں کوئی غیر ملکی وفد آیا ہوا تھا۔ ملک میں سرمایہ کاری کی ترغیب کے لیے صحافیوں کو بلایا گیا تھا۔ جانِ عالم نے اس حوالے سے ایک بھر پور کالم بھی لکھا جس پر اخبار کے مالک نے اسے شرفِ ملاقات بخشا اور اس کے لیے ایک سو روپے فی کالم کا معاوضہ بھی مقرر کر دیا۔ دوسری جانب برسرِ اقتدار سیاسی جماعت نے بھی اس سے رابطہ کیا اور گزارش کی کہ وہ ان کے اجلاسوں میں آیا کریں اور پارٹی کا نقطہ نظر اور سرگرمیوں کا تذکرہ اپنے کالم میں کیا کریں۔
دس سالوں کے بعد یہ پہلی کامیابی تھی جس نے دونوں کو خوب مسحور کیا تھا۔ اس کے بعد بھی دونوں دوست رات انارکلی آ کر اسی طرح بیٹھتے تھے مگر اب ان کے ساتھ بیٹھنے والوں کی نگاہ میں ان کا مقام و مرتبہ بلند ہو گیا تھا۔ اسلم شہیدی کو کئی بار محسوس ہوا کہ اس کی شاعری سے زیادہ لوگوں کی دلچسپی جانِ عالم کی گفتگو میں ہوتی تھی۔ان میں سے کسی کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ جانِ عالم کے لکھے ہوئے کالم کی زبان و بیان کی اصلاح اسلم شہیدی کرتا تھا۔ یہ دونوں میں ایک خاموش معاہدہ تھا اور اسلم شہیدی نے آخری دم تک یہ معاہدہ نبھایا۔
بارہویں سال میں جانِ عالم نے ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی خرید لی اور یوں ان کی جان اس پرانے پھٹیچر موٹر سائکل سے چھوٹی جو نہ جانے کب کا اپنی طبعی عمر پوری کر چکا تھا۔ ابھی تک انہوں نے انار کلی رات آ کر بیٹھنا نہیں چھوڑا تھا۔پھر تو جیسے جانِ عالم کو پر ہی لگ گئے۔ اس کی پرواز بہت بلند ہو گئی۔ ایک نئے نکلنے والے اخبار کے مالک نے اسے اپنے اخبار میں کالم لکھنے کی پیش کش کی تو اس سے انکار نہ ہو سکا۔ ایک تو ماہانہ مشاہرہ پہلے اخبار سے یک دم چار گنازیادہ تھا اور اس کے ساتھ رہائش کے لیے ایک فلیٹ اور نئی زیرو ماڈل کرولا گاڑی، مگر اس منزل تک پہنچنے میں جانِ عالم کو چودہ سال لگ گئے۔جانِ عالم کے ساتھ ہی اسلم شہیدی اس کے فلیٹ میں منتقل ہو گیا۔شروع میں تو دونوں کی روٹین وہی رہی مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس میں غیر محسوس تبدیلی آتی چلی گئی۔ اب اسلم شہیدی کی ملاقات جانِ عالم سے بھی کم کم ہونے لگی۔ جانِ عالم رات گئے لوٹتا تھا۔ اکثر وہ نشے کی حالت میں ہوتا اور اپنے فلیٹ میں پہنچ کر وہ جیسے بستر پر گر جاتا۔ اسلم شہیدی نے ایک مقامی کالج میں ملازمت اختیار کر لی۔وہ جب صبح تیار ہو کر کالج جاتا، جانِ عالم سویا ہوتا اور جب اس کی کالج سے واپسی ہوتی، جانِ عالم کسی تقریب میں یا پھر کسی سے ملنے جا چکا ہوتا۔ اب تو اسلم شہیدی کو اس کے روزو شب اور اس کے معمولات کا بھی پتہ نہ چلتا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ شام کی کسی تقریب میں دونوں کی ملاقات ہو جاتی۔مگر وہ کسی پر یہ ظاہر نہ ہونے دیتے تھے کہ ایک ہی فلیٹ میں رہتے ہوئے ان کی یہ ملاقات کتنے دنوں کے بعد ہو رہی ہے۔
ایک دن کالج سے اسلم شہیدی فلیٹ پر پہنچا تو ایک رقعہ اس کا منتظر تھا۔ جانِ عالم نے اسے بتایا تھا کہ وہ ایک بڑے سیاستدان کی بیٹی سے شادی کر رہا ہے۔ والد نے اپنی بیٹی کو ڈیفنس میں ایک کنال کی کوٹھی بنوا کر دی ہے۔ شادی اس جمعرات کو ہوگی جب کہ ولیمہ جمعہ کی شام کو ان کے نئے گھر میں ہو گا جہاں شہر بھر کی بڑی بڑی سیاسی وسماجی اور کاروباری شخصیات شرکت کریں گی۔مزید اس نے یہ بھی لکھا کہ اگر وہ بھی آ جائے تو اسے خوشی ہو گی۔ اور یہ کہ شادی کے بعد وہ مستقل نئے گھر میں شفٹ ہو جائے گا اور یہ فلیٹ اس نے اسے تحفہ میں پیش کیا، وہ جیسے چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے۔جانِ عالم نے اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ اس کو بے خبر رکھتے ہوئے کر لیا، یہ بات اس کے لیے بہت حیرت ناک تھی۔ یہ سب کیسے ہوا، اگر ان کے مشترکہ دوست اس سے پوچھیں گے تو وہ کیا کہے گا؟ اس بات کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔اور اگر وہ ولیمے پر نہیں جائے گا تو بھی مشترکہ دوست پوچھیں گے تو وہ کیا جواب دے گا؟
اسلم شہیدی ولیمے پر شرکت کے لیے جاتے ہوئے بہت دیر تک سوچتا رہا کہ اسے تحفے میں کیا دینا چاہیے؟ آخر اس نے ایک گلدستہ بنوایا، جس میں وہ پھول بکثرت تھے، جانِ عالم جن کے لیے پاگل ہو جاتا تھا۔ ڈیفنس میں جانِ عالم کا گھر ڈھونڈنے میں رکشے والے نے اسلم شہیدی کی معاونت کی۔جانِ عالم گیٹ پر کھڑا مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔اسلم شہیدی گرم جوشی، حیرت ، محبت اورمسرت کے ملے جلے تاثرات کے بہائو میں جانِ عالم کی جانب بڑھا مگر جانِ عالم اس دوران ایک بڑی گاڑی سے اتر کر آنے والی ایک خاتون کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ خاتون کے ہاتھ سے اس نے پھول لیے اور اسے گھر کے اندر چھوڑنے چلا گیا۔ واپس آنے تک اسلم شہیدی وہیں کھڑا تھا۔جانِ عالم نے اس کے ہاتھوں میں پھول دیکھے تو اپنے نوکر کو آواز دی کہ ان سے یہ پھول لے لو اور اندر رکھوا دو، جملہ پورا کرنے سے پہلے وہ ایک اور مہمان کی جانب متوجہ ہو چکا تھا۔ اسلم شہیدی کو نظر انداز کیے جانے کے احساس نے زمین میں گاڑ دیا۔نوکر نے جب اس کے ہاتھوں سے گلدستہ پکڑا تو اسے ہوش آیا، مگر اب اسے اتنا ہوش آ چکا تھا کہ اس نے دوسرے ہاتھ کی مدد سے جیب سے فلیٹ کی چابی نکالی اور نوکر کو پھولوں کے ساتھ دیتے ہوئے کہا کہ اپنے صاحب کو یہ چابی بھی دے دینا کہ اب مجھے اس کی ضرورت نہیں رہی۔رکشے والا ابھی تک وہیں تھا،وہ رکشے میں بیٹھا اور کہنے لگا کہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر مجھے یہاں سے کہیں دور لے چلو۔

Related posts

Leave a Comment