نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی تعریف و توصیف کے ہیں لیکن عربی ،فارسی،اردو اور مسلمانوں کی دوسری زبانوں میں لفظ نعت صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف اور مدح کے لئے مخصوص ہوگیا ہے۔اب جب بھی ہم نعت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ پارۂ شاعری ہے جس میں سرور کونین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و صفات کی توصیف و مدح کی گئی ہو۔
نعت کے لئے کوئی مخصوص ہیئت مقرر نہیں ہے۔یہ کسی بھی صنف سخن کی ہیئت میں لکھی جا سکتی ہے۔یہ صنف سخن قصیدہ اور مثنوی بھی ہوسکتی ہے ۔غزل،قطعہ،رباعی یا کوئی اور صنف سخن بھی ہوسکتی ہے۔
نبی کریم کی ذات و صفات کے منظوم اظہار کا نام نعت ضرور ہے اور بادی النظر میں بہت آسان بھی ہے لیکن حقیقتاً یہ مشکل اور نازک ہے۔ سہل اس اعتبار سے کہ سرکار دوعالم سے خلوص و محبت کے نتیجے میں ہونے والے جذبات و احساسات کو شاعر کسی بھی صنف شاعری میں نظم کرسکتا ہے لیکن نازک اور مشکل اس لحاظ سے ہے کہ شاعر کو تخلیقی عمل کی تکمیل تک بہت محتاط رہنا پڑتا ہے کیوں کہ خالق کائنات کی حمد و ثنا ہو یا مدحت رسول ،دونوں اصناف سخن مسلمانوں کے نزدیک عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔
نعت گوئی کا آغاز سب سے پہلے عربی زبان میں ہوا اور عربی سے اس کا رواج فارسی ،اردواور دیگر دوسری زبانوں میں ہوا۔دیگر اصناف شاعری میں بحر و اوزان کے مختلف ضحافوں میں لفظوں کے دروبست سے کام چل جاتا ہے لیکن نعت واحد موضوع ہے جو اپنے دامن پر ذرہ برابر دھبہ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔سخنوروں کو دوران تخلیق دماغ کی ساری چولیں ہلانا پڑتی ہیں۔ ان کی ذرا سی بے احتیاطی تمام ریاض و کاوش کا خون کرسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو کی نعتیہ شاعری کو ہر دور میں حسان بن ثابت،خاقانی،فردوسی،سعدی،نظامی،قدسی،عرفی،جامی اور رومی جیسے عظیم المرتبت شاعروں کی تلاش رہی ہے کہ انھوں نے سرکار دوعالم کی عقیدت و محبت میں جنم لینے والے پاکیزہ خیالات و افکار کو تخلیقی عمل کی تکمیل تک معبود و عبد ،وحدانیت و عبودیت ،خلاقیت،بشریت اور فطرت و نفسیات آدمیت میں فرق، توازن، رتبے اور مقام کا ہر لحظہ خیال رکھا ہے۔
اردو شاعری کے تقریباً تمام ادوار میں شعرا نے نعت کو موضوع فکر بنایا۔غزل کی ہیئت ہو یا نظم کی کوئی بھی خارجی شکل،نعت کا موضوع اپنے مکمل خد و خال کے ساتھ نمایاں نظر آتا ہے۔تاہم ایسی نعتوں کی اردو شاعری میں ہمیشہ کمی رہی جن میں خالق و مخلوق ،آقا و بندے کے مرتبے اور درجے کو ملحوظ رکھتے ہوئے اظہار عقیدت کیا گیاہو۔گویا اس امر کا بہت کم خیال رکھا گیا ہے کہ نعت اور حمد کی حدود ایک نہ ہونے پائیں۔اس افراط و تفریط کا ایک سبب تو یہ ہے کہ نعت گو حضرات کا ایک محدود حلقہ جو نعت کے فن سے اصلاح معاشرہ کا کام لینے کا قائل ہے،سرکار دوعالم کی سیرت نگاری پر اپنے نعتیہ کلام کی عمارت استوار رکھتا ہے اور دوسرے طبقے کی اکثریت سراپا نگاری کو فن کی بنیاد بنائے ہوئے ہے۔اس طرح نعت نگاروں کے امور ذہنیہ واردات قلبیہ کی بہت سی سمتیں اور الگ الگ جہتیں ،بیک وقت ہمارے تجربات و مشاہدات کا حصہ بن جاتی ہیں۔
جہاں تک نعت گوئی سے معاشرہ کی اصلاح ،تہذیب معاشرت،سماجی برائیوں کے انسداد،عظمت انسانیت کا فروغ اور اشاعت و تبلیغ دین کا کام لینے کا تعلق ہے ،اس بارے میں اردو نعت نگاروں کا وہ طبقہ قابل صد تحسین بھی ہے اور قابل پزیرائی بھی ،جن کی مذہبی و دینی موضوعات پر مشتمل فکری کاوشیں بالخصوص نعتیں مذکورہ بالا افادی تقاضوں کی مکمل طور پر آئینہ دار ہیں اور جو سردار انبیاء کے اسوۂ حسنہ اور سیرت طیبہ کو اپنی نعتیہ شاعری کا بنیاد ی مو ضوع بنائے ہوئے ہیں۔نعتیہ شاعری ،مذہبی شاعری کے اولیات میں شامل ہے جس کا تعلق دینی احساس ،عشق رسول اور صدق و اخلاص سے ہے۔قرآن و حدیث ،مضامین نعت کے بنیادی مآخذ ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ نے’’خلق محمدی‘‘ کی تعریف میں ’’خلقہ القرآن ‘‘ کہہ کر پوری آسمانی کتاب کو نعت کے موضوع سے متعلق کر دیا۔
نعت گوئی اردو شاعری کی اعلیٰ ترین قدروں میں شمار ہوتی ہے۔اس کا تعلق چونکہ اس ذات اقدس سے ہے جس ذات اقدس نے صدیوں کی تاریک دنیا کو انسانیت اور تہذیب کے سورج کا اجالا بانٹا جس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے : ’’ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔‘‘ نعت گوئی یوں تو بہت آسان لگتی ہے لیکن غور سے جسم و دل وا کرکے دیکھئے تو بہت مشکل کام ہے ۔چونکہ شاعر کو نعت کہتے وقت اس کا پاس و لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے کہ آداب شریعت بھی اس کے ہاتھ سے نہ چھوٹیں اور آداب عشق رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس کے دل و دماغ مامور ہوں۔
دیگر زبانوں کی طرح اردو شاعری کو بھی نعت گوئی میں ممتاز مقام حاصل ہے اور اردو شعرا ء نے اس صنف میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔بقول مولانا سید ابو الحسن علی ندوی :
’’نعت گوئی عشق رسول اور شوق مدینہ ہندوستانی شعراء کا محبوب موضوع رہاہے اور فارسی شاعری کے بعد سب سے بہتر اور سب سے موثر نعتیں اردو ہی میں ملتی ہیں۔‘‘ (سید ابو الحسن علی ندوی، کاروان مدینہ،مجلس تحقیقات ونشریات اسلام،ندوہ لکھنؤ؛ صفحہ: ۱۷۶)
نعت گوئی میں نہ صرف زبان دیکھی جاتی ہے اور نہ بیان پر نظر جاتی ہے ،نہ فنی نکات تلاش کئے جاتے ہیں ،اس کی روح صرف اخلاص اور محبت رسول ہے۔اگر بات دل سے نکلی ہے تو دلوں پر اپنا اثر چھوڑتی ہے اور بارگاہ رسالت مآب میں وہ نذرانۂ عقیدت اور محبت قبول ہوجائے تو اشعار کو حیات جاویدانی نصیب ہوجاتی ہے جیسے فارسی میں سعدی، شیرازی، عبد الرحمٰن جامی،محمد جان قدسی وغیرہ کی بعض نعتیں اس کی شہادت دے رہی ہیں۔
نعت کو عام طور پر دیگر اصناف سخن ( مثلاً حمد،منقبت اور مدح وغیرہ) کے ہم معنی خیال کیا جاتا ہے ۔جہاں لغوی طور پر ان کے مطالب میں اختلاف پایاجاتا ہے وہیں نعت کو (ماسوائے حمد) ان سب اصناف پر برتری حاصل ہے۔نعت کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کے ذریعے سے اللہ کی رضا حاصل کرنا اور اشاعت دین کا کام لینا ہے۔بقول ارشاد شاکر اعوان : ’’ نعت کا مقصود اصلی ثنائے رسول کے حوالے سے محاسن دین کا بیان (نشر و اشاعت) اور تقرب الٰہی کا حصول ہے۔‘‘ (ارشاد شاکر اعوان،عہد رسالت میں نعت،صفحہ ۲۳)
نعت گوئی کا اولین محرک مسلمانوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ آنحضرت کا ذکر کرنا،آپ کی سیرت و شخصیت سے عوام کو روشناس کرانا،آپ کی پیروی و تقلید کی ترغیب دینا اور آپ پر درود وسلام بھیجنا کار ثواب اور ذریعۂ نجات ہے۔ مسلمان چھٹی صدی عیسوی میں اپنے انقلاب آفریں عقائد کے ساتھ عرب کی سرزمین سے نکل کر دوسرے علاقوں میں آباد ہوئے اور توحید و رسالت کا آفاقی پیغام دیتے رہے۔عربی فارسی اور دیگر زبانوں کا شاید ہی کوئی مسلمان شاعر ایسا ہو جس نے نعت کی صورت میں حضور سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار نہ کیا ہوبلکہ اکثر غیر مسلم شعرا نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔نعتوں کا جتنا بڑا ذخیرہ عربی فارسی اور اردو میں موجود ہے وہ کسی اور زبان میں نظر نہیں آتا۔یہ بات بھی اہم ہے کہ نعت کا لفظ شاعری کی کسی مخصوص ہیئت کی طرف نہیں بلکہ موضوع کی طرف اشارہ کرتا ہے۔یعنی شاعری کی ہئیتوں مثلاً غزل ،قصیدہ، مثنوی،رباعی،قطعہ ،مسدس،مخمس،نظم آزاد،نظم معریٰ،سانیٹ،ہائیکو اور دوہے وغیرہ میں نعتیں کہنے کی سعادت ہمارے شعرا نے حاصل کی ہے۔
جہاں تک روایتی نعتیہ شاعری کے موضوعات کا تعلق ہے ان میں آنحضرت کی حیات طیبہ اورسیرت کے توسط سے انسانی زندگی کے تمام اخلاقی،مذہبی،تہذیبی،معاشرتی،معاشی اور سیاسی مباحث بھی شامل کئے گئے ہیں۔حضور کے حلیۂ اقدس ،معجزات،واقعہ معراج کے ساتھ ساتھ آپ کے فضائل،سیرت،معمولات،عبادات،آداب مجالس اوردیگر اوصاف حسنہ،غرض آپ کی حیات کے ہر پہلو پر بڑی عقیدت و محبت سے معمور ہوکر قلم اٹھایا گیا ہے۔
نعت گوئی کا سفر عرب سے ایران اور پھر ہندوستان تک پہنچا۔حضرت امیر خسرو،حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز، قلی قطب شاہ،ولی دکنی،سراج اورنگ آبادی،امیر مینائی اور محسن کاکوروی سے لیکر الطاف حسین حالی ، علامہ اقبال،احمد رضا خان بریلوی،مولانا ظفر علی خان،محمد علی جوہر،حفیظ جالندھری اور ماہر القادری تک نے نعت نگاری میں نئے نئے مضامین کا اضافہ کیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں سب سے پہلے جس نے زبان کھولی وہ آنحضرت کے مربی و محسن عم نامدار ابو طالب ہیں۔سیرت النبی میں ابن ہشام نے ایک قصیدہ کے سات شعر نقل کئے ہیں جس میں ابوطالب نے پرجوش اشعار میں نبی کریم کی مدح کی اور اپنے خاندان (بنو ہاشم) کی خصوصیات کا ذکر کیا۔اردو عربی کے ممتاز ادیب و ناقد اور دارالعلوم ندوہ العلما کے سابق معتمد التعلیم مولانا عبد اللہ عباس ندوی نے اپنی کتاب ’’ عربی میں نعتیہ کلام‘‘ میں دنیائے ادب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ ابوطالب وہ پہلے شخص ہیں جن کی زبان مبارکہ سے سب سے پہلے آپ کے لئے مدحیہ اشعار نکلے۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی سے نعت گوئی کا رواج شروع ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا اور پھیلتا چلا گیا۔پہلے نعت گو شاعر آنحضرت کے صحابی ،حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے۔اسی سلسلے میں ایک اور نام کعب بن زھیر کا ہے جنھوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیااور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں نعتیہ قصیدہ پیش کیا۔عربی نعت گوئی میں ایک بہت اہم اور ممتاز نام ساتویں صدی ہجری کے محمد بن سعید بوصیری کا ہے جن کا ’قصیدہ بردہ‘ ساری دنیائے اسلام میں آج بھی مخصوص محفلوں میں عقیدت و محبت سے سنایا جاتا ہے اور جس کے سیکڑوں تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں۔نعت گوئی کا یہ سلسلہ آج بھی عربی شاعری میں جاری ہے۔عربی نعت کے زیر اثر فارسی زبان میں بھی نعت گوئی کا آغاز ہوا۔فردوسی کے شاہنامہ میں نعتیہ اشعار موجود ہیں۔ابو سعید ابو الخیرکی رباعیات میں نعتیہ کلام موجود ہے۔ان کے علاوہ حکیم سنائی،فرید الدین عطار،نظامی،مولانا روم ، سعدی شیرازی ،امیر خسرو،مولانا جامی،عرفی اور قدسی وغیرہ فارسی نعت گو شعرا ہیں۔
امیر خسرو برعظیم ہند و پاک کی وہ عظیم اور زندۂ جاوید شخصیت ہیںجن کا نام ہمارے خون کے ساتھ گردش کر رہا ہے۔ ان کی نعتیں آج بھی محفل حال و قال اور محفل میلاد میں شوق سے سنی جاتی ہیں۔ان کا یہ شعر تو ضرب المثل بن گیا ہے :
آفاق ہا گردیدہ ام مہر بتاں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام اما تو چیزے دیگری
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
حضرت امیر خسرو کے بعد مولانا جامی ،عرفی اور قدسی کے نام نامی آتے ہیںجن کا کلام آج بھی محفل سماع و میلاد میں سن کر عاشقان رسول اشک بار ہوجاتے ہیں۔حضرت قدسی کی وہ غزل ،جس کا مطلع :
مرحبا سیدی مکی مدنی العربی
دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی
آج بھی ہمارے کانوں میں رس گھولتی ہے۔
عربی و فارسی شاعری کی اس عظیم روایت نے اردو نعت گوئی کو بھی شدت سے متاثر کیا اور جب سے اردو شاعری کا آغاز ہوا ،نعتیہ شاعری کسی نہ کسی صورت میں ہمیں ملتی ہے۔نعتیہ اشعار حسن شوقی کے ہاں بھی ملتے ہیں اور قلی قطب شاہ کے ہاں بھی۔ملا وجہی اور نصرتی کے ہاں بھی ملتے ہیںاور ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی کے ہاں بھی۔گذشتہ چار پانچ سوسال کے عرصے میں لکھے جانے والے معراج نامے،نور نامے،تولد نامے ،وفات نامے آج بھی کثیر تعداد میں مختلف کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔نعتیہ شاعری سوداؔ و میر دردؔ کے کے ہاں بھی اپنا رنگ دکھاتی اور دلوں کو گرماتی ہے اور نظیرؔ اکبرآبادی اور غالبؔ کے ہاں بھی ۔لیکن وہ شعرا جنھوں نے خصوصیت کے ساتھ نعت گوئی کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ بنایا ان میں کرامت علی خان شہیدی کا نام نعت گوئی کی تاریخ میں خاص اہمیت رکھتا ہے :
خدا منھ چوم لیتا ہے شہیدیؔ کس محبت سے
زباں پر میری جس دم نام آتا ہے محمد کا
کم و بیش اسی دور کا ایک اور نام مولوی غلام امام شہید کا ہے۔شہید سراپا عشق تھے اور انھوں نے مختلف اصناف سخن مثلاً قصیدہ،غزل،مثنوی،خمسہ،ترجیع بند میں صرف اور صرف نعتیہ کلام لکھا۔جذب و شوق اور قدرت اظہار نے ان کی شاعری کو پر اثر بنا دیا ہے۔ شہید نے میلاد بھی لکھا تھاجو میلاد شہید کے نام سے آج بھی محفل میلاد میں پڑھا جاتا ہے۔ان کے یہ دو شعر ملاحظہ کریں :
بوسے کی تمنا ہے جو مینائے فلک کو
جھکتا ہے سوئے گنبد خضرائے مدینہ
قسمت یہ دکھاتی ہے حسرت کی نظر سے
ہم دیکھتے ہیں اس کو جو دیکھ آئے مدینہ
حکیم مومن خاں مومنؔاردو میں منفرد عشقیہ شاعری کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن انھوں نے نعتیہ شاعری میں جس انداز سے عشق رسول کا اظہار کیا ہے وہ بھی منفرد و ممتاز ہے۔مومن نے کل نو قصیدے لکھے جن میں سے ایک حمد میں ہے،ایک نعت میں اور چار خلفائے راشدین کی مدح میں ہیں۔ ان کے علاوہ ایک مثنوی،ایک تضمین اور کچھ رباعیاں بھی نعت میں لکھی ہیں۔عشقیہ شاعری کی وہ لے جو مومن کی غزل میں ملتی ہے نعت میں ایک ایسا والہانہ جوش اور گداز بن جاتی ہے کہ پڑھنے والا عشق رسول کی کیفیات سے سرشار ہوجاتا ہے۔
امیر مینائی کے سارے کلام میں نعتیہ اشعار ملتے ہیں لیکن’’ محامد خاتم النبین‘‘ ان کا نعتیہ دیوان ہے جو ۱۸۷۲ء میں شائع ہوا۔امیر مینائی کے نعتیہ کلام میں جذب و کیف اور عقیدت و عشق نے وہ اثر و تاثیر پیدا کیا ہے کہ ان کا کلام سننے والے کی روح میں اتر جاتاہے۔
نعت گو شعرا میں محسنؔ کاکوروی سب سے الگ حیثیت کے مالک ہیں۔انھوں نے ساری عمر صرف اور صرف نعتیہ شاعری کی :
یہ ہے خواہش کروں میں عمر بھر تیری ہی مداحی
نہ اٹھے بوجھ مجھ سے اہل دنیا کی خوشامد کا
سوز و گداز ،فکر آفرینی اور فنی شعور کے اعتبار سے محسنؔ کاکوروی نعت گوئی میں ایک منفرد حیثیت کے مالک ہیں ۔
محسن کاکوروی کے ہم عصر اور ان کے بعد کے شعرا میں مولانا الطاف حسین حالیؔ بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں۔انھوں نے نعت کو امت مسلماں کی اصلاح و بیداری کے لئے استعمال کیا۔یہی وہ لے ہے جو علامہ اقبالؔ کی شاعری میں ایک نئے انداز سے جلوہ گر ہوئی ۔ویسے تو انھوں نے غزل کی ہیئت میں بھی نعت لکھی ہے لیکن مسدس مدو جزر اسلام ،جو مسدس حالی کے نام سے معروف ہے ،انھوں نے ولادت سے متعلق جو اشعار لکھے ہیں وہ آج بھی دلوں کو گرماتے اور زبان زد خاص و عام ہیں۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
اس دور کے دوسرے نعت گو شعرا میں یوں تو بہت سے نام ہیں لیکن شاہ نیاز بریلوی،بیدم شاہ وارثی اور احمد رضا خان بریلوی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ شاہ نیاز کا کلام کیفیت عشق میں ڈوبا ہوا ہے ۔بیدم شاہ وارثی عشق مجسم بن کر سامنے آتے ہیں اور حضرت احمد رضا خان بریلوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و صفات اور حیات و سیرت کو کیفیت عشق سے ملا کر ایک نیا رنگ عطا کرتے ہین۔ ان کا دیوان’’ حدایق بخشش‘‘ تین حصوں میں شائع ہوکر عشاق رسول کے دلوں میں شمع محبت و عقیدت روشن کر چکا ہے۔ ان کا سلام جس کا مطلع یہ ہے :
مصطفیٰ جانے رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم رسالت پہ لاکھوں سلام
آج بھی ہر خاص و عام کی زبان پر ہے۔
علامہ اقبال کا سارا کلام مدحت رسول کا موثر اظہار ہے ۔انھوں نے اپنے کلام میں دین اسلام کی روح کو اس طرح نعت کا رنگ دیا ہے کہ خود اقبال ملت اسلامیہ کی نشاہ الثانیہ کی علامت بن گئے ہیں۔بال جبریل کی یہ غزل سنیے جس میں سوز وگداز بھی ہے اور حیات نو کی وہ آرزو بھی جس سے علامہ اقبال کی ساری شاعری عبارت ہے :
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرۂ ریگ کو دیا تونے طلوع آفتاب
یہ تعارف نامکمل رہ جائے گا اگر مولانا ظفر علی خاں کا ذکر نہ کیا جائے۔مولانا کے ہاں نعت گوئی میں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور اسا لیب کی وسعت بھی۔ ان کی نعتیں محفلوں میں عام طور پر محویت کے ساتھ سنی جاتی ہیں۔ان کے کلام میں عشق رسول سے پیدا ہونے والی کیفیت روح کو اس طرح گرما دیتی ہے کہ عشق رسول ،نعت سننے والے کا جز و احساس بن جاتا ہے۔
اس دور میں اور اس کے بعد جن دوسرے شعرا نے نعت گوئی میں نام پایا ،اس میں امجد حیدرآبادی،اکبر وارثی میرٹھی، سہیل اقبال، حفیظ جالندھری،بہزاد لکھنوی،احمد سہارنپوری اور ماہر القادری کے نام نمایاں اور ممتاز ہیں۔
جس وقت ادب میں اشتراکیت ،ترقی پسندی اور جدیدیت کی تحریکوں کے اثرات واضح طور پر موجود تھے ،اس فضا میں بھی نعت گوئی نے اپنا روحانی اور تخلیقی سفر جاری رکھا۔ترقی پسند شعرا نے بھی نعتیہ اشعار کہہ کر اپنی فکری عقیدت کا اظہار کیا۔ بیسویں اور اکیسویں صدی کا موازنہ کریں تو نعت اپنے فکر و فن ،اظہار،لفظیات اور موضوعات کے اعتبار سے ہٹ کر عصری مسائل کو بھی نعت میں پیش کیا جاتا ہے اور ان کا حل حضور کی سیرت مبارکہ اور حیات صالح میں تلاش کیا جاتا ہے۔نعت گوئی کا منظر نامہ روز بروز وسیع ہوتا جا رہا ہے۔جدید نعت قومی اور ملی تشخص کو اپنے احاطے میں لے لیتی ہے۔جدید نعت کا منظرنامہ فکر اور اظہار کی ندرت لئے ہوئے ہے۔ہر شعبۂ زندگی کے جملہ تقاضوں کے جمالیاتی اظہار نے بھی نعت کے موضوعات کو وسیع کیا ہے۔نئی لفظیات ،استعارات،علامات،تشبیہات اور تراکیب کی مدد سے شعرا اپنی تخلیقی فکر اور وارفتگی کا بھر پور اظہار کر رہے ہیں اور عقیدت و محبت کے نئے ذائقوں سے سرشار ہو رہے ہیں۔
حضور کی ذات و صفات کا احاطہ کرنے کے لئے ہر عہد کے شعرا نے اپنی ذہنی اور قلبی صلاحیتوں سے کام لیا اور اپنے عہد کے لحاظ سے اس میں معنویت اور جدت پیدا کی۔جدید نعتیہ شاعری اس حقیقت کی غماز ہے کہ سرکار دوعالم کی شان میں نعت کہتے ہوئے ایسا طرز اظہار اختیار کریں جو ہم عصر طرز احساس کی نمائندگی کرتا ہوا اور اس میں جذبے اور فکر کی تازگی بھی بدرجہ اتم موجود ہو۔
وقت کے ساتھ ساتھ نعت گوئی کی مقبولیت ہمارے دور میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔عام طور پر جلسوں اور تقریبوں میں تلاوت کلام پاک کے بعد نعت رسول مقبول پیش کی جاتی ہے۔سرکاری سطح پر بھی نعت گوئی کی سرپرستی کی جارہی ہے ۔ریڈیو اور ٹیلی وژن سے نعتیہ مشاعرے اور کلام نشر کیے جاتے ہیں ۔آج کی نعتیہ شاعری میں حالیؔ اور اقبال کی لے بھی شامل ہے اور محسنؔ کاکوروی اور احمد رضا خان بریلوی کی عشقیہ سرشاری بھی۔جدید نعت میں موضوع و ہیئت کا تنوع بھی قابل ذکر ہے۔نعت گو شعرا کی ایک طویل فہرست ہے جن میں حفیظ تائب،مظفر وارثی،محشر رسول نگری، احمد ندیم قاسمی،یوسف ظفر،منور بدایونی،عبد العزیز خالد،حنیف اسعدی،صبا اکبرآبادی،عارف عبد المتین،حافظ لدھیانوی، طفیل ہوشیار پوری،انجم رومانی،نصرت قریشی،شیر افضل جعفری،ناصر زیدی،یزدانی جالندھری،ذوقی مظفر نگری،اقبال عظیم، صمد انصاری،رشید الزماں خلش اور جعفر بلوچ وغیرہ بھی شامل ہیں۔
ہمارے عہد میں نعت میں فکر کی نئی شمعیں روشن ہوئی ہیں۔ متواتر شائع ہونے والے نعتیہ مجموعے اس بات کے گواہ ہیں کہ جدید روایات کے یہ سفیر موضوعات،الفاظ،تراکیب اور تشبیہات کا نیا نظام قائم کرکے نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں :
’’ دنیا کی ان ساری زبانوں میں ،جن میں نعت گوئی کا عام رواج ہے ،نعت گوئی کا تعلق اظہار عقیدت سے بھی ہے اور عشق رسول سے بھی۔چودہ سو سال سے شاعروں نے مدحت رسول کے نئے نئے اور اچھوتے پہلو تلاش کئے ہیں اور اپنے دلی جذبات کا گہری عقیدت اور سرشاری کے ساتھ اظہار کیا ہے نیز اس پہلو کو اجاگر کیا ہے کہ کس طرح تعمیر حیات اور انسانیت میں حضور کا اسوۂ حسنہ اور تعلیمات معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔‘‘ (ادب،کلچر اور مسائل از ڈاکٹر جمیل جالبی)
دور حاضر میں بھی اکیسویں صدی کے تناظر میں اردو نعت گوئی بدلتے ہوئے فکری رجحانات اور میلانات کی بھر پور عکاسی کر رہی ہے۔ہمارے عہد کی نعت نگاری جدید عصری حسیت کی بھی آئینہ دار ہے۔نعت گوئی کا یہ ذوق نئی نسل کے شعرا میں بھی پروان چڑھ رہا ہے اور وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ نعت گوئی کا مستقبل روشن ہے۔