انصار احمد شیخ ۔۔۔ سرسیّداحمد خان کی ادبی خدمات

سرسیّداحمد خان کی ادبی خدمات 

سرسیّد کی ادبی خدمات اور حقیقت پسندانہ رجحان کی تفہیم کے لیے اُس عہد کے سیاسی اور سماجی پس منظر سے آگاہی ضروری ہے۔برّصغیر کی تاریخ میں انگریزوں کی آمد کو مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ قرار  دیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے ہندوستان میں وارد ہوتے ہی یہاں کی بے امنی، سیاسی انتشاراور طوائف الملوکی کو دیکھ کر اقتدارِ حکومت اپنے قبضے میں کرنے کے لیے تگ  و دو شروع کردی تھی۔ آہستہ آہستہ اپنی دانش مندی، تنظیم ، مکّاری اور چالبازی سے یہاں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرتے گئے۔ چناںچہ  مدراس اور بنگال تک قانونی طور پر حکم رانی کے قابل ہوگئے۔(۱)پلاسی کی لڑائی اور چار دہائی بعد ٹیپو سلطان کی شہادت نے انگریزوں کے اقتدار کو مزید تقویت بخشی ۔ ملک کے مختلف حصّوں پر قبضے کے ساتھ ساتھ اپنی طاقت اور حکومت کو وسعت دینا شروع کردی۔ دوسری طرف ان ہندوستانیوں کی زندگیوں پر جہالت اور گُم راہی کے دبیز  پردے پڑے ہوئے تھے ۔ توہّم پرستی، تنگ نظری ، تعصّب،پژمردگی ،بے حسی ، کم ہمّتی ، خود غرضی کے ساتھ کنکوے بازی اوربسنت جیسی متعدّد بے ہودہ اور فضول رسمیں اختیار کیے ہوئے تھے۔ اسی زمانے میں عیسائیت کی تبلیغ بھی زوروں پر  تھی۔ ایسے حالات میں ان سب کے سدِّباب کے لیے مذہبی اور معاشرتی اصلاح کی تحریکوں نے جنم لیا۔ سیّد احمد شہید بریلویؒ، حضرت اسماعیل شہیدؒ، شاہ عبدالعزیزؒ، راجا رام موہن اور رابندر گھوش نے اپنی تعلیمات کے ذریعے ان ہندوستانیوں کو ہر طرح سے بیدار کرنے کی مساعی کی۔ اس صورتِ حال میں سب سے زیادہ ابتر حالت مسلمانوں ہی کی تھی۔ان سے اقتدار چھینا جارہا تھا۔ بادشاہ ایک وظیفہ خوار کی حیثیت سے زندگی کے باقی ماندہ دن گزار رہا تھا۔ مسلمانوں کی اقتصادی حالت بھی مشکلات میں گھری ہوئی تھی۔ ۱۸۵۷ ء کے اس انقلاب میں برطانوی سامراج نے سیاسی ہوش مندی، تدبّر و بصیرت اور تنظیمی صلاحیتوں سے کام لے کر فتح حاصل کرلی اور اسے غدر کا نام دیا، جب کہ ہندوستانیوں نے اسے جنگِ آزادی سے موسوم کیا۔ اس جنگِ آزادی میں انگریزوں نے بادشاہ کے خاندان سمیت ہزاروں بے گناہوں کو قتل اورپھانسی پر لٹکا دیا ۔ جنگِ  آزادی کے اختتام پر مسلمانوں اور ان کے رہ نماؤں پر بغاوت کے مقدّمے چلائے گئے اور انھیں سخت سے سخت سزائیں دی گئیں۔ اس جنگ میں انگریزوں کا نزلہ مسلمانوں پر زیادہ گرا اور یہی ان کی نظر میں غدّار ٹھہرائے گئے۔ ایسی صورتِ حال میں مسلمانوں کو کُڑھنے اور غم و غصّہ کرنے کے سوا کچھ سُجھائی  نہیں دیتا تھا۔اُن کا کوئی پُرسانِ حال نہ تھا ،انھیں اپنا کھویا ہوا وقار اور عظمت کی بحالی کی کوئی سبیل دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی۔
یہ تھے وہ روح فرسا اور نامساعد حالات کہ جن کو سرسیّد احمد خان نے بہ چشم خود دیکھااور خود بُھگتابھی۔(۲) اس جنگِ آزادی میں خود سرسیّد کا گھر تباہ و برباد ہوگیا تھا، مال و اسباب کو لوٹ لیا گیا، دہلی میں ان کے اعزّہ انگریزوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ بھی ان صدمات کے سبب کچھ ہی عرصے میں انتقال کر گئیں۔ان سب کے باوجود سرسیّد کو اپنے خاندان سے زیادہ قوم کی فکر دامن گیر تھی۔ قوم کی زبوں حالی اور مایوسی کی کیفیت کو دیکھ کر تو ایک مرتبہ سرسیّد نے بھی ہمّت ہار دی تھی اور یہ ارادہ کرلیاتھا کہ پنشن لے کر باقی ماندہ زندگی مصر میں گزاردی جائے ، لیکن اس خیال کو وہ عملی جامہ نہ پہنا سکے۔حالی کی زبانی سرسیّد کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’غدر کے بعد نہ مجھ کو اپنا گھر لُٹنے کا رنج تھا ،نہ مال واسباب کے تلف ہونے کا، جو کچھ رنج تھا اپنی قوم کی بربادی کا۔۔۔ میرا ارادہ ہندوستان میں رہنے کا نہیں ہے اور درحقیقت یہ بالکل سچ بات تھی۔ میں اس وقت ہرگز نہیں سمجھتا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور کچھ عزّت پائے گی اور جو حال اُس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا ، چند روز میں اسی خیال اور اسی غم میں رہا۔ آپ یقین کیجیے کہ اس غم نے مجھے بڈّھا کردیا اور میرے بال سفید کردیے۔ جب میں مرادآباد میں آیا، جو ایک بڑا غم کدہ ہماری قوم کے رئیسوں کی بربادی کا تھا، اس غم کو کسی قدر اور ترقّی ہوئی ،مگر اس وقت یہ خیال پیدا ہوا کہ نہایت نامردی  اور بے مروّتی کی بات ہے کہ اپنی قوم کو اس تباہی کی حالت میں چھوڑ کر میں خود کسی گوشۂ عافیت میں جابیٹھوں، نہیں اس کی مصیبت میں شریک رہنا چاہیے اور جو مصیبت پڑے اس کے دُور کرنے میں ہمّت باندھنا قومی فرض ہے۔ میں نے ارادئہ ہجرت موقوف اور قومی ہم دردی کو پسند کیا۔‘‘(۳)
چناںچہ  سرسیّد نے بڑے غوروفکر کے بعد قوم کی سوئی ہوئی تقدیر کو جگانے کی عملی جدّوجہد شروع کر دی۔ وہ ایک راست باز اور حقیقت پسند انسان تھے۔قدرت نے ان کو غوروفکر کرنے اور حقیقتوں سے آشنا کرنے کا شعور بخشا تھا۔غدر کی تباہی کے بعد وہ اس حقیقت کو جان گئے تھے کہ یہ غیر ملکی، جن کی تعداد مقامیوں کی نسبت معمولی تھی، انھوں نے سیاسی بصیرت ، جدید علوم و فنون اور سائنسی ایجادات کے بل بُوتے پر اور یہاں کے لوگوںمیں پھوٹ ڈال کر جو پورے ہندوستان پر اپنی بادشاہت قائم کرلی ہے، اِن سے مفاہمت کرنے ہی میں عافیت ہے۔ وہ سمندر میں رہتے ہوئے مگرمچھ سے بیر لینے کے حق میں نہیں تھے ۔ انھوں نے اُنھی کے ہتھیار سے انھیں شکست دینے کا مصمّم ارادہ کرلیا۔ لہٰذا ہندوستانیوں میں انھوں نے سب سے پہلے تعلیمی شعور اُجاگر کرنے کی طرف توجّہ دی۔
سرسیّد مختلف الحیثیت شخصیت کے مالک تھے۔اُنھوں نے سیاسی ، تعلیمی ، مذہبی ، ملکی ، ملّی ، تحقیقی غرض ہر میدان میں اپنے لافانی اور اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ جنگِ آزادی کے موقع پر جب بالخصوص مسلمانوںکو عتاب کا نشانہ بنایا گیا اور ہر چہار طرف سے مسلمانوںپر الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور انگریزوں نے اسے سچ جان کر مسلمانوںپر جو شرم ناک مظالم ڈھائے اور جس سفّاکی اور درندگی کا مظاہرہ  کیا، اس کی مثال برّصغیر کی تاریخ میں کم ہی نظر آئے گی۔ ایسے دورِ ابتلا میں سرسیّد کی ذات مسلمانوں کے حق میں منارۂ نور ثابت ہوئی۔ سرسیّد کی معاملہ فہمی اور دُور اندیشی نے مسلمانوںکو  انگریزی حکومت کے غیظ و غضب اور ظلم وستم سے محفوظ رکھا اور ’اسبابِ بغاوتِ ہند‘ لکھ کر اس کا تجزیاتی مطالعہ کیا۔اِس میں سرسیّد نے جس جرأت اور بے باکی کے ساتھ زمینی حقائق بیان کیے ہیں اور ہندوستانیوں کا جو بھرپور دفاع کیا ہے، وہ بلاشبہ قابلِ ستایش ہے۔ سرسیّد نے اس کتاب میں دو ٹوک اور واضح الفاظ میں اس جنگ کے حقیقی اسباب بیان کرتے ہوئے ایک حقیقت نگار کی طرح انگریزوں کو اس کا ذمّے دار قرار دیا۔ انھوں نے دلائل سے یہ ثابت کیا کہ انگریزی حکومت نے ہندوستانی مذاہب میں جو حد درجہ مداخلت اور ان کے سیاسی اور سماجی حقوق غصب کیے، حقیقتاً وہی اس انقلاب کا محرّک ثابت ہوئے۔ چناں چہ سرسیّد کی اس حقیقت نگاری کو بغاوت پر محمول کیا گیا ۔ حال آں کہ سرسیّد کو اُن کے بہی خواہوں نے حتّی الامکان ،مارشل لاکے اس دور میں اس کام سے دور رکھنے کی کوشش کی اور ان کتابوں کو جلانے کی صلاح بھی دی، کیوں کہ  اس کی اشاعت سے مصنّف کی جان خطرے میں پڑسکتی تھی، جس کی انھیں قطعاً فکر نہیں تھی۔ وہ تو اصل حقائق کو طشت ازبام کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذااس صلے میں آپ کو باغی کہہ کر حکومتِ وقت سے سخت سے سخت سزائیں دینے کی سفارش کی گئی، لیکن یہاں بھی اُن کی سیاسی بصیرت(۴) آڑے آگئی اور آپ محفوظ رہے۔
جنگِ آزادی کے بعد سرسیّد کی تمام تر توجّہ  کا مرکز و محور ہندوستانی معاشرہ تھا۔ اُن کے خیال میں خاص کر مسلمانوں کو اگر پستی سے نکالنا ہے تو انھیں جدید  علوم و فنون سے روشناس کرانا انتہائی ضروری ہوگا، کیوں کہ سرسیّد کا ایقان تھا کہ مسلمانوں کی ناکامی اور زوال کا سب سے بڑا سبب زیورِ تعلیم سے بے بہرہ ہونا ہے۔ لہٰذا انھوں نے قدیم اور فرسودہ  نظامِ تعلیم سے انحراف کرکے جدید تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کی تعلیم پر زور دیا ، تاکہ وہ سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے آگے بڑھ کر اپنا کھویا ہوا وقار اور باعزّت مقام حاصل کرسکیں۔ اِس کے لیے وہ ہندوستانیوں سے کافر ، ملحد، نیچری وغیرہ کہلوانے کے لیے بھی تیار تھے اور ایک حقیقت پسند کے طور پر سرسیّد نے قوم کو یہ بھی باور کرادیا تھا کہ تمھاری اولاد کی بھلی بُری زندگی کا دارومدار تم ہی پر ہے، اگر انھیں قومی تعلیم سے بہرہ مند نہیں کیا اور وہ آوارہ اور خراب ہوگئے تو موت کے بعد بھی تمھاری روحیں بے قرار ہی رہیں گی۔ (۵)سرسیّد کی تعلیمی جدّوجہد کا آغاز ۱۸۵۹ء میں مراد آباد کے ایک مدرسے کے قیام سے ہوکر علی گڑھ اسکول ۱۸۷۵ء پر منتج ہوتا ہے، لیکن حقیقتاً ۱۸۹۸ء تک یعنی چالیس سال بڑے شدّومد سے جاری وساری رہتا ہے۔(۶) تعلیم کے ضمن میں سرسیّد نے خلوصِ نیت سے جو دل چسپی لی ، تعلیم کی اہمیت اور حقیقت کا آئینہ جس تڑپ کے ساتھ قوم کو دکھایا، اس جذبے ، لگاؤ اور احساس کو ہم قومی تعلیم کے حوالے سے اُن کے مضامین میں جابہ جا ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
سرسیّد نے قوم میں علمی روشنی پھیلانے کے لیے غازی پور میں جو ’سائنٹیفک سوسائٹی‘ قائم کی، اس کے قیام کا اصل مقصد یہ تھا کہ دوسری زبانوں سے مختلف علوم و فنون کے جو مفید جواہر پارے یورپ کے کُتب  خانوں میں مدفون ہیں، انھیں اپنی زبان میں ترجمے کراکے لوگوں کے دلوں میں علومِ جدیدہ کی وقعت اور اہمیت پیدا کی جائے ،تاکہ وہ اس طرف راغب ہوکر روشن خیال اور حقیقت پسند بن سکیں۔لہٰذا سرسیّد اور اُن کے رفقاے کار کے باہمی مشوروں سے کتابوں کا انتخاب کرکے دیسی زبانوں کے قالب میں ڈھالاگیا۔ اس طرح نہایت محنت اور جاں فشانی  سے اس سوسائٹی کے زیرِ اہتمام تقریباً چالیس علمی اور تاریخی کتابوں کے ترجمے کیے گئے ۔ اہم موضوعات پر لیکچرز کا انعقاد کرانے کے ساتھ ساتھ یہاں سائنسی تجربات بھی کیے جاتے تھے۔ علاوہ ازیں اس سوسائٹی کی طرف سے ایک اخبار ’انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘کا بھی اجرا کیا گیا، اس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ ہندوستانی یورپ کے ترقّی پسند خیالات اور وہاں کی تہذیب و تمدّن اور سیاسی معاملات سے واقف ہوئے ،بلکہ انگریزی حکومت بھی یہاں کے رسم ورواج اور سیاسی و سماجی مسائل سے باخبر ہوئی۔ اس طرح اس اخبار نے انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان راہ و رسم اور محبّت و یگانگی پیدا کرنے کے لیے ایک پُل کا کام کیا۔ دراصل سرسیّد نے اس گزٹ کے ذریعے ہندوستانیوں میں علمی و سیاسی شعور پیدا کرنا تھا  تا کہ قدامت پسند ذہنیت کو تبدیل کر کے علومِ جدیدہ کے حصول کے لیے راہ ہموار ہوجائے اور دوسری طرف حکومتِ انگلشیہ کو ہندوستانیوں کی راہ میں حائل مشکلات سے واقف کرانے کی کو ششیں کی گئیں تاکہ ان کے مسائل کا تدارک ہوسکے۔(۷)اس سوسائٹی اور اس کے زیرِ اثر گزٹ سے اردو زبان کی ترقّی اور دوسرے اخبارات پر غیر معمولی اثرات مرتّب ہوئے ،یعنی اس کے طفیل اردو صحافت میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس کی دیکھا دیکھی ملک کے طول و عرض میں بے شمار سوسائٹیاں ، انجمنیں ، سبھائیں وغیرہ جیسے ادارے قائم ہوئے، جنھوں نے اپنے اپنے علاقوں میں اعلیٰ مقاصد کے لیے مفید کام کیے۔(۸) لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ اس سوسائٹی کی بدولت برِّصغیر میں قوم کو مروّجہ علوم و فنون سے واقف کرانے کے ساتھ ساتھ اُن میں تاریخ سے دل چسپی پیدا کرائی گئی اور اردو زبان کو اظہار کا وسیلہ بنا کر اس کے دامن کو وسیع کیا گیا۔ اس کے علاوہ ہندوستانیوں میں سیاسی و سماجی شعور بیدار کرکے اُن میں زندگی کی ٹھوس حقیقی قدروں کا احساس اُجاگر کیا تاکہ وہ عقلی صلاحیتوں کو بروے کار لاکر حقیقی زندگی کو مؤثّر انداز میں بسر کرسکیں۔ اسی عرصے میں سرسیّد نے مغربی تعلیم اور ترقّی کو بہ چشم خود دیکھنے کی غرض سے انگلستان کا سفر کیا۔ اس سفر کی ایک اور خاص وجہ سرولیم میور کی کتاب’لائف آف محمدؐ‘ کا مدلّل انداز میں جواب دینا بھی تھا، جس کے لیے برٹش میوزیم کے کُتب خانوں سے استفادہ کیے بغیر چارہ نہیں تھا۔ چناں چہ انھوں نے اسلام سے محبّت او ررسولِ خداﷺسے بے پناہ عقیدت و احترام کا ثبوت دیتے ہوئے مخالفین کے لگائے گئے لغو اعتراضات کے جوابات کمالِ تحقیق اور محنتِ شاقّہ سے ’خطباتِ احمدیہ ‘ کی صورت میں دیے۔ جب تک انھوں نے اس کتاب کا جواب نہیں دیا ، آرام و سکون کو اپنے اوپر حرام کرلیاتھا۔ اس ضمن میں الطاف حسین حالیؔ ’حیاتِ جاوید‘میں سرسیّد  کے محسن الملک کے نام لکھے گئے خطوط کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ان دنوں قدرے دل کو شورش ہے، ولیم صاحب کی کتاب کو میں دیکھ رہا ہوں۔ اُس نے دل کو جلا دیا اور اُس کی ناانصافیاں اور تعصّبات دیکھ کر دل کباب ہوگیا اور مصمّم ارادہ کیا کہ آنحضرت ﷺ کی سِیَر میں جیسا کہ پہلے سے ارادہ تھا کتاب لکھ دی جائے،اگر تمام روپیہ خرچ ہوجائے اور میں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہوجاؤں تو بلا سے ۔۔ کتابیں اور میرا اسباب یہاں تک  کہ میرے ظروف مسّی تک فروخت کرکے ہزار روپیہ بھیج دو۔ کیا کہیے اس کتاب کے پیچھے خواب و خور حرام ہوگیا ہے، خدا مدد کرے۔‘‘(۹)
دیارِ غیر میں کس مپرسی کی حالت میں سرسیّد کی یہ مذہبی سرگرمی ناقابلِ  فراموش اور گراں قدر کاوش ہے۔ غیر مسلموں پر اسلام کی صداقت اور اس کی حقّانیت ثابت  کرنے کے لیے سرسیّد نے اُن ہی کے وطن میں بیٹھ کر اور اُن ہی کے کتب خانوں سے استفادہ کرکے حقیقت پسندانہ انداز میں دین کے قطعی اصولوں پر عالمانہ اندازمیں مدلّل بحث کی ہے۔ سرسیّد کا لندن میں قیام جو ڈیڑھ سال پر محیط ہے، بہت مصروفیت میں گزرا۔ انھوں نے ایک حقیقت نگار کی طرح یورپ کے طرزِ معاشرت ، اخلاقیات ، علمی مجلسیں اور علمی ترقّیات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور دل میں یہ تہیّہ کرکے واپس آئے کہ اپنے ملک کے لوگوں کو بھی اسی قسم کے اصلاحی پروگرام اور تعلیمی ماحول بہم پہنچانے کی سعی کروں گا۔ چناں چہ  وطن واپسی کے بعد سرسیّد نے سب سے پہلے رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘کا اجرا کیا۔ انھوں نے یہ پرچہ دراصل مسلمانوں کے مذہبی خیالات کی اصلاح، غیر ضروری رسم ورواج سے چھٹکارا اور اُن میں اخلاق وشائستگی پیدا کرنے کے ساتھ توہّم پرستی سے نجات دلانے کے لیے جاری کیا تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ جس طرح ایڈیسن اور اسٹیل نے اپنے پرچوں اسپیکٹیٹراور ٹیٹلر سے انگریز قوم کی اصلاح کا بیڑا اُٹھایا تھا(۱۰) اور انھیں اس میں خاطر خواہ کامیابی بھی نصیب ہوئی تھی۔ بعینہٖ وہ بھی اس رسالے سے ہندوستانی قوم میں انقلابی تبدیلیاں دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ چناں چہ سرسیّد  اور اُن کے رفقاے کار قومی خیالات میں تبدیلی لانے کے لیے کوشاں ہوگئے اور مستقل مزاجی سے تمام علمی، ادبی، سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھنےلگے۔ سرسیّد اور اُن کے رُفقا کی مساعیٔ جمیلہ سے اس پرچے کی بدولت جب اصلاح پسندی کے ذریعے معاشرے کے بے شمار حقیقی مسائل کی عکّاسی کی گئی تو مسلمانوں کی ترقّی اور تمدّن کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے۔سرسیّد کی اَن تھک محنت وجستجو سے ماضی پرستی میں مبتلا افرادجدید  تقاضوں کے مطابق سائنسی اور زمینی حقائق سے نظریں چار کرنے کے قابل ہوگئے۔ اس پرچے کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھاکہ مسلمانوں کے اذہان سے یہ خیال نکل جائے کہ اسلام جدید دنیوی علوم و فنون کا مخالف ہے ،بلکہ وہ تو تحصیلِ علم کے لیے دُور دراز تک کا سفر اختیار کرنے کا درس دیتاہے۔ اس طرح سرسیّد نے مسلمانوں تک  اس پرچے کے توسّط سے وہ باتیں پہنچائیں، جو انھیں آج تک کسی اور ذرائع سے نہیں پہنچی تھیں۔ مسلمانانِ ہند کے خیالات میں وسعت اور ترقّی  کے علاوہ اردو زبان کو بے پناہ فروغ ملا۔آپ کی کوششوں سے اس زمانے کی بے مایہ زبانِ اردو کو پختہ رنگ روپ، علمی اعتبار،قدرومنزلت اور وقار نصیب ہوا۔زبان وبیان کے حوالے سے انھوں نے یہ بھی کوشش کی کہ تحریر کو بناوٹ ، مبالغہ آرائی اور لفّاظی سے دُور رکھا جائے،بلکہ لفظیات کا گہرا اثر دل ودماغ پرہو،یعنی جو کچھ مصنّف کے دل میں ہو، وہی قاری کے دل پر بھی اثرانداز ہو۔(۱۱)نیزسرسیّد نے تہذیب الاخلاق کے مضامین میں سادہ اور عام فہم طرزِ بیان اختیار کیا، لیکن اس سادگیِ بیان میں خلوص اور تاثیر کو برقرار رکھا ہے۔ڈاکٹر سیّد عبداللہ کی نظر میں سرسیّد کا سب سے بڑا کارنامہ ہی یہی ہے کہ انھوں نے اردو نثر کو سہل اور سلیس بناکر عام اجتماعی زندگی کا ترجمان اور علمی مطالب کے اظہار کا ذریعہ بنا دیا۔(۱۲) حال آں کہ اُس دور میں اردو نثر تصنّع ، تکلّف، شاعرانہ فن کاریوں اور آرایشوں سے بوجھل ہورہی تھی۔ اداے مطالب میں تشبیہات و استعارات اور شوکتِ لفظی کا چلن عام تھا۔ سرسیّد نے پہلی بار ان قدیم روایات سے انحراف کرکے دقیق سے دقیق موضوعات کو بھی سہل اور عام بول چال کی زبان میں ادا کیا اور اپنی نثر کو تکلّفات ، جذباتیت اوربے جا طوالت سے پاک کرکے اسے منطقی ، استدلالی اور حقیقت نگاری کی شاہ راہ پر گام زن کیا،جس سے موضوعات میں تنوّع اوراندازِ نظر میں وسعت پذیری دیکھنے میں آئی۔بِلاریب ان کے اِس اسلوب نے اردو زبان کی نشو و نما میں نمایاں حصّہ لیا،بعدازاں سرسیّد کے رفقا کے توسّط سے اس طرزِنگارش کو ملک بھر میں قبولِ عام حاصل ہوا اور یوں اردو نثر جدید شکل میں ارتقا پذیر ہوئی۔
سرسید نے سیاسی ، مذہبی ، تاریخی، معاشرتی ، علمی اور تعلیمی موضوعات پر کثرت سے لکھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ تہذیب الاخلاق میں جس قدر مضامین چھپے، اُن میں تقریباً آدھی تعداد سرسیّد کے لکھے ہوئے مضامین کی ہے۔ ان مضامین کے ذریعے انھوں نے اپنی قوم کو توہّم پرستی اور تعصّبات کی دلدل سے نکال کر حقیقت پسندی کی طرف متوجّہ کرایا۔اُن میں قومی شعور اور روشن خیالی پیدا کی۔ قوم کی اصلاح کے پیشِ نظر اُن کی تحریروں میں تبلیغی رنگ واضح دکھائی دیتاہے،لیکن اس میں دل چسپی اور حقیقی اثر پیدا کرنے کے لیے وہ جدید تشبیہوں ، استعاروں ، تمثیلوں، مثالوں ، لطیفوں اور کہاوتوں سے کام لیتے ہیں، جس سے آسانی سے سمجھ میں آنے کے ساتھ ساتھ وہ قارئین کے دلوں میں اُترتی چلی جاتی ہیں۔ مثلاً اُن کے دو مضامین ’’عزمِ جزم‘‘ اور ــــ’’رسم ورواج کی پابندی کے نقصانات‘‘ کی ابتدا ہی داناؤں اور دانش وروں کے اقوال سے ہوتی ہے۔ سرسیّد نے اپنے بیش ترمضامین میں قوم کی پستی اور تنزّل کا سبب رسم و رواج کی پابندی بتایا ہے۔ اُن کے خیال میں رسم ورواج کی اندھا دھند تقلید سے انسان کی ذہنی اور عقلی صلاحیتیں ماند پڑجاتی ہیں جس کے سبب ترقّی  کی تمام راہیں مسدود ہوجاتی ہیں۔
سرسیّد نے تمام عمر خلوصِ دل سے قوم کے عیوب اور برائیوں کی نشان دہی کی اور انھیں ان سے بچاؤ کے لیے اعلٰی تعلیم ، خوش خلقی ، نیکی وہم دردی اور محبّت ویگانگی کا درس دیا اور اپنی قوّتِ فکروعمل سے اس سوئی ہوئی قوم میں بیداری اور جینے کی حقیقی جوت جگائی۔ دوسری قوموں کے نزدیک مسلمان جو حقیر اور بدتر تصوّر کیے جاتے تھے، انھیں اُن کی نظر میں مہذّب قوم بنانے کی جدّوجہد کی۔ لہٰذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تہذیب الاخلاق کے اجرا کے چند سال بعد ہی مسلمانوں میں تہذیبی بقا، سیاسی ترقّی اور تعلیمی شعور میں وسعت پیدا ہوئی۔ اُن میں جدید علوم و فنون کی طرف رغبت اور اوہام پرستی کا کافی حد تک ازالہ ہوا۔سرسیّد نے عقل کو رہ بر و رہ نما مان کر مذہب  اور دیگر علوم کوحقیقت پسندانہ اندازسے سمجھانے میں اردو زبان کا استعمال کرکے اسے اوجِ کمال تک پہنچایا۔ اُن کے مضامین میں موضوعات کا جو تنوّع اور نیا پن ہے ،اُس کی بنیاد عقل پر ہے۔ اُن کے نزدیک حقیقت تک رسائی اور اس کا ادراک عقل اور نیچر ہے۔ وہ ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر وہ اپنے عنوانات کو مادّیت ، اجتماعیت اور حقائق نگاری جیسے موضوعات پر تعمیر کرتے چلے جاتے ہیں۔
’تہذیب الاخلاق‘ کے بعد سرسیّد کاسب سے بڑا کام علی گڑھ میں مدرسے کا قیام تھا۔ ۸؍ جنوری ۱۸۷۷ء کو لارڈلٹن وائسراے ہند نے غیر معمولی شان وشوکت کے ساتھ اس کا سنگِ بنیاد رکھا۔(۱۳) اس مدرسے کے قیام کے لیے سب سے زیادہ مشکل امر پیسے کا حصول تھا، جس کے لیے سرسیّد  کو بہت کھکھیڑ اُٹھانا پڑی۔ سرسیّد نے چندے کے لیے نِت نئے طریقے ایجاد کیے۔ علی گڑھ میں کتابوں کی دُکان لگا کر خود اس میں بیٹھے اور کتابیں فروخت کیں۔ جلسے کا انعقاد کراکے اُس میں غزلیں  گائیں، ڈرامے کے ذریعے اسٹیج پر آئے ، نیشنل والنٹیر بن کر گلے میں جھولی ڈالی۔(۱۴) غرض انھوں نے مختلف حیلے بہانوں سے خاطر خواہ چندہ اکٹّھا کرلیا۔ دراصل کالج قائم کرنے کا جنون اور قوم کی حالت سُدھارنے کی دُھن اُن پر سوار تھی، جس کی وجہ سے وہ کوئی بات خاطر میں نہیں لاتے تھے، جس طرح تہذیب الاخلاق میں بعض مضامین پر مخالفتوں کا بازار گرم ہوا تھا اور کُفر کے فتوے لگائے گئے تھے، بجنسہٖ اس مدرسے کے قیام کے بعد ہی سے مخالفین اور نام نہاد کٹھ ملاؤں کا ایک گروہ پھر میدان میں نکل کھڑا ہوا۔یہ لوگ سرسیّد  کے روشن اور ترقّی پسند خیالات کو اسلام کے منافی سمجھتے تھے۔علی گڑھ کالج کے متعلق بھی اُن کا یہی خیال تھا کہ سرسیّد یہاں بھی اُن ہی عقاید و خیالات کی تبلیغ کریں گے، لیکن سرسیّد نے ایسا نہیں کیا۔ اس کالج کو ابتدا ہی سے ایسے نام وَر اساتذہ مل گئے، جن کی لیاقت  ، قابلیت اور محنت سے اس کی ترقّی میں نمایاں اضافہ ہونے لگا۔ اس انتخاب کا سہرا بھی سرسیّد کے سر جاتا ہے کہ جن کی مردُم شناسی نے سر ٹامس آرنلڈ، سر والٹر رالے، مولانا شبلی نعمانی ، مولوی سمیع اللہ وغیرہ جیسے لائق فائق اساتذہ کا انتخاب کیا۔ ان قابل اساتذہ کی کاوشوں سے کالج کی شہرت اور نیک نامی میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ سرسیّد  بھی اس کے قیام کے بعد ہی سے شب و روز اس کی تعلیمی حالت کو بہتر سے بہتر بنانے میں کوشاں رہے اور اس میں انھیں خاطر خواہ کام یابی بھی حاصل ہوئی ۔ کچھ عرصے بعد جب انھوں نے ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کیا تو اُن کا پُر تپاک استقبال کیا گیا ۔ لوگوں نے اُن کے اس اقدام کو بہت سراہا اور دل کھول کر معقول رقمیں اُن کے حوالے کیں۔(۱۵) بہ ہرکیف اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ سرسیّد نے وقت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے قوم کو تعلیم کی طرف اُبھارا ، اُن میں جدید تعلیم و تربیت کے ذریعے ذہن و فکر کو جِلا بخشی اور انھیں ترقّی  یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا کرنے کی شعوری کوششیں کیں۔ اس کالج ہی کے طفیل قوم کا معیارِ زندگی نہ صرف بلند ہوا ،بلکہ یہاں کے فارغِ تحصیل طلبہ حکومتِ انگلشیہ کی نگاہ میں قدر سے دیکھے جانے لگے ۔ بعد ازاں یہی طالبانِ علم سرکاری اور نجی اداروں میں اعلٰی عہدوں پر فائز ہوئے۔ اس کو ہم سرسیّد کی کرامت ہی کہہ سکتے ہیں کہ جنھوں نے اپنی بے لوث اور بے لاگ محنت اور عزم و استقلال سے بالخصوص مسلمان قوم کو اپنی ذات سے باہر دیکھنے کا شعور بخشا۔
سرسیّد تاریخی حقائق کا عرفان رکھتے تھے اور وہ مغربی ترقّی کی چکا چوند کو بھی دیکھ آئے تھے اور اُسی ترقّی کے خواہاں بھی تھے۔ تقریباً اکیاسی سالہ زندگی میں انھوں نے پچاس سال اپنی قوم کے لیے وقف کردیے۔ وہ مرتے دم تک اپنے دل ودماغ اور زبان و قلم سے اپنی قوم کی اصلاح کرتے رہے۔ سرسیّد جہالت اور تاریکی کے اس دور میں روشنی کی ایسی کرن بن کر چمکے کہ جس کی ضوفشانیوں سے اُن کی زندگی ہی میں برِّصغیرکا گوشہ گوشہ منوّر ہوگیا۔ وہ ایسی باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے کہ ہزار  مخالفتوں کے باوجود وہ ہرگز کبھی مایوس یا دل برداشتہ نہیں ہوئے۔ ساری زندگی مخالفین کے حملوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے۔ اُن کے عزم وحوصلہ میں کبھی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ قوم کی فلاح و بہبود کے لیے سرسیّد نے کبھی رنگ، نسل، قوم، فرقہ، مذہب یا مسلک کی تخصیص نہیں رکھی۔تاہم  ۱۸۶۷ء میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت جب بنارس میں ہندی زبان کورائج کرنے کے لیے اردو زبان کی مخالفتوںکا بازار گرم ہوا،(۱۶) اُس وقت اردو زبان کی محبّت اور حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے سرسیّد کے خیالات اور زاویۂ نظر میں واضح تبدیلی دیکھنے کو آئی۔ اس واقعے سے پہلی بار سرسیّد پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ اب ہندو اور مسلمان کا باہم اتّحاد اور ملاپ کسی طور بھی مناسب نہیں، اس طرح سرسیّد نے آئندہ ساری جدّوجہد مسلمانوں کی اصلاح کے لیے صرف کردی۔
سرسیّد گوناگوں اوصاف کے حامل اور ایک ہی وقت میں مختلف سطحوں پر مصروفِ عمل رہنے والے شخص تھے اور ہر سطح پر انھوں نے اپنے اظہار کے گہرے نقوش ثبت کیے۔ وہ ایک راسخ العقیدہ انسان  بھی تھے، جب کبھی کسی نے دینِ اسلام پر یا آنحضرت ﷺ یا پھر ازواجِ مطہرات کے خلاف کسی بھی قسم کے اعتراضات کیےتو آپ نے اُن کا فوراً علمی دفاع کرتے ہوئے تحقیقی اور عالمانہ انداز میں بڑے مدلّل جوابات دیے ، اس طرح انھوں نے اسلام اور اپنے اسلاف و اکابر کی منزّہ، اصلی، حقیقی اور سچّی تصویریں اہلِ علم کے سامنے پیش کردیں۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سرسیّد نے جن لوگوں کی کتابوں پر تبصرے یا اُن کے جوابات دینے کی جرأت کی ، وہ کوئی عام اشخاص نہیں تھے، بلکہ وہ غیر ملکی اور ہندوستان میں اعلٰی عہدوں پر متمکن تھے۔ سرسیّد نے جان ومال کی پروا کیے بغیرصاف، کھرے اور حقیقت پسندانہ انداز میں ایک سچّے     عاشق کی طرح انتہائی ذمّہ   داری  سے اس فرضِ منصبی سے عہدہ بر آ ہوئے۔
سرسیّد کی کم وبیش تمام زندگی اپنے ہم وطنوں کی ابتراور پراگندہ حالت کی اصلاح کرنے اور انھیں قعرِ مذلّت سے نکال کر باعزّت قوموں کے برابر لاکھڑا کرنے کی کوششوں میں صرف ہوئی۔ انھوں نے اپنے قلم کو صرف اور صرف مسلمانانِ  ہند کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔ قومی اصلاح کا مقصد ہر لمحے اور ہر آن اُن کے سامنے رہتا تھا۔وہ اس فرض سے کبھی غافل دکھائی نہیں دیے۔ انھوں نے ہمیشہ سطحی، غیر فطری اور غیر حقیقی باتوں سے سختی سے گریز کیا ۔ حقیقت کا صحیح ادراک کرنے والے سرسیّد اپنے وقت کے سب سے بڑے حقیقت پسند تھے۔ انھوں نے انگریزوں کی چال بازیوں اور مکّاریوں کو پوری طرح سمجھ لیا تھا کہ حکم رانوں سے ٹکرانے میں صرف اور صرف اپنا ہی نقصان ہے ۔ اُن کا خیال تھا کہ اگر ان سے مقابلہ کرنا ہے تو ان کی سطح پر آنا ضروری ہے۔ لہٰذا  اس حقیقت کو جان لینے کے بعد انھوں نے اپنی پوری زندگی اسی کام کے لیے وقف کردی اور اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں میں حقیقت سے آنکھیں چار کرنے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق جینے کا درس دیتے رہے۔ حالات و واقعات کے تحت اور عصرِحاضر کے پیشِ نظر انھوں نے حق گوئی اور حقیقت نگاری سے جابہ جا کام لیا۔علی گڑھ تحریک کے روح ورواں، مصلحِ اعظم،تجدّد پسنداور اولوالعزم شخصیت سرسیّد نے اپنے رفقاے کارکے اذہان وقلوب کو بھی فکروآگہی اور روشن پسندی کے چراغ سے منوّر کردیا۔ انھوں نے بعدازاں ادب کی تقریباً تمام اصناف پر اپنے غیر معمولی اثرات مرتّب کیے۔چناںچہ سرسیّد کی ان مساعی کودیکھتے ہوئے عصرِ حاضر کا کوئی بھی باشعورادیب اس بات کو تسلیم کرنے میں ذرا بھی تأمل نہیں کرے گا کہ اگر سرسیّد نہ ہوتے توحقیقت پسندی اور روشن خیالی کے سائے میں پروان چڑھ کر ہمارا اردو ادب ترقّی کی اعلیٰ منازل طے کرتااور نہ ہی ملّت کا سفینہ بہ حسن وخوبی ساحلِ مراد کو پہنچ پاتا!!

حواشی:
۱۔ ڈاکٹر یونس حسنی، اختر شیرانی اور جدید اردو ادب،انجمن ترقّیِ اردو پاکستان کراچی،اشاعتِ اوّل: ۱۹۷۶ء،ص۸۵۔
۲۔ مشیر احمد علوی ناظر کاکوروی، علی گڑھ تحریک اور ادب اردو، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ، ۱۹۹۹ء، ص۱۱۔
۳۔ بہ حوالہ الطاف حسین حالی ،حیاتِ جاوید،آئینۂ ادب ، لاہور،۱۹۶۶ء،ص۱۱۶۔۱۱۷۔
۴۔ سرسیّد نے اسبابِ بغاوتِ ہندکو ہندوستان میں شائع نہیں کیاتھا ،بلکہ اس کے پانچ سو نسخے چھپوا کرولایت بھجوادیے تھے اور ایک نسخہ گورنمنٹ کو بھی دے دیا تھا۔اِس دور اندیشی نے انھیں انگریزوں کے عتاب سے بچا لیا تھا۔ نیز دیکھیے: الطاف حسین حالی کی ’حیاتِ جاوید‘، ص۱۲۴۔۱۲۵۔
۵۔ مولانا محمد اسماعیل پانی پتی،مرتّبہ،مقالاتِ سرسیّد(حصّہ دوازدہم) ،مجلسِ ترقّیِ ادب،لاہور،طبع اوّل: اگست ۱۹۶۳ء،ص۱۴۵۔
۶۔ خواجہ منظور احمد ’’سرسیّد کی تعلیمی خدمات‘‘، مشمولہ: قومی زبان اور سرسیّد  شناسی، انجمنِ ترقّیٔ اردو پاکستان کراچی،اشاعتِ اوّل : اکتوبر ۲۰۱۷ء، مرتّب: ڈاکٹر تہمینہ عبّاس، ص۱۱۹۔۱۲۰۔
۷۔ اے ایچ کوثر، اردو کی علمی ترقّی میں سرسیّد اور اُن کے رفقاے کار کا حصّہ،لائبریری پروموشن بیوروکراچی،۱۹۸۴ء،ص ۹۳۔
۸۔ باباے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ،سرسیّدا حمد خان: حالات وافکار،انجمن ترقّیِ اردو پاکستان، کراچی،اشاعت دوم : ۱۹۷۵ء، ص۹۳۔
۹۔ الطاف حسین حالیؔ ،محوّلۂ بالا،ص۴۲۷۔۴۲۸۔
۱۰۔ اے کوچ کوثر،محوّلۂ بالا، ص۱۰۰۔
۱۱۔ بحوالہ باباے ڈاکٹر مولوی عبدالحق،محوّلۂ بالا،ص۴۲۔
۱۲۔ ڈاکٹر سیّد عبداللہ، سرسیّد احمد خان اور ان کے نامور رفقا کی اردو نثر کا فنّی اور فکری جائزہ، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد،طبع دوم : جون ۱۹۸۹ء،ص۴۔
۱۳۔ حامد حسن قادری ،داستان تاریخِ اردو،اردو اکیڈمی سندھ، کراچی،۱۹۸۸ء، ص۳۰۸۔
۱۴۔ باباے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق،محوّلۂ بالا، ص۷۶۔
۱۵۔ شیخ محمّد اکرام، موجِ کوثر،فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور،۱۹۶۸ء، ص۹۱،۹۳۔
۱۶۔ پروفیسر کنور محمد منیر، ’’سرسیّد احمد خان اور دو قومی نظریہ‘‘، مشمولہ: سرسیّد شناسی، الفیصل لاہور، دسمبر ۲۰۰۲ء،ترتیب وانتخاب:ڈاکٹر طاہر تونسوی،ص۳۴۷۔

Related posts

Leave a Comment