آسی خانپوری __ تعارف و کلام ۔۔۔۔ محمد یوسف وحید

آسی خانپوری  ۔۔۔تعارف و کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خان پور سابق ریاست بہاول پور کا اہم شہر رہا ہے۔ریاست بہاول پور کی سرکاری زبان فارسی تھی جب کہ یہاں کی مقامی زبان سرائیکی تھی۔شہاب دہلوی کے نزدیک بہاول پور میں اُردو کا پہلا شاعر مولوی محمد اعظم (1724-1778ء) ہے۔ جنہوں نے اپنا دیوان’ ’مجموعہ اعظم‘‘کے عنوان سے ترتیب دیا تھا۔
مولوی محمد اعظم عباسی شہزادوں کے اتالیق اور نواب صادق محمد خان عباسی کے عہد میں دربار میں شاہی مورٔخ بھی رہے۔ان کے دیوان میں اُردو اور فارسی کی غزلیں ہیں۔ اس کے بعد سرکاری سرپرستی میں بہاول پور میں اُردو کوفروغ حاصل ہوا، جس کے اثرات چاچڑاں شریف(خان پور)سے تعلق رکھنے والے معروف صوفی بزرگ خواجہ غلام فریدؒ کی شاعری پر دکھائی دیتے ہیں۔ خواجہ غلام فرید ‘عباسی نوابان کے پیرومرشد تھے اور ان کا بچپن بھی ڈیرہ نواب میں نوابانِ بہاول پور کے محل میں گزرا تھا۔ علاوہ ازیں خواجہ غلام فریدؒ کی مجلس میں آخری مغل فرماں رَوا بہادر شاہ ظفر کے پوتے مرزا احمد اختر اور کئی دوسرے اُردو بولنے والے احباب بھی حاضر رہے۔ اس لیے خواجہ غلام فرید نے سرائیکی کے ساتھ ساتھ فارسی، سندھی اور اُردومیں بھی شاعری کی۔ اس سے پہلے ان کے پیرومرشد اور بڑے بھائی خواجہ فخر جہاںؒ کا فارسی دیوان ملتا ہے۔ خان پور میں خواجہ غلام فرید اُردو زبان کے اَوّلین شعراء میں سے ہیں، ان کا اُردو دیوان متعدد بار شا ئع اور اس پر بہت سا تحقیقی کام بھی ہوچکا ہے۔
خان پور میں خواجہ غلام فریدؒ،خواجہ محمدیارفریدیؒ اور مغفورالقادریؒ کے ساتھ ساتھ اس دور میں ہمیں محسن خان پوری کا ذکر ریختی کے حوالے سے نظر آتا ہے، انہوں نے لکھنؤکی خالص زبان میں صنف ریختی لکھی اس کے بعدان کے بیٹے امیرالکلام عبدالرحمن آزاد کا نام ملتا ہے، جنہوں نے غزل کی کلاسیکی روایت کو پروان چڑھایا۔ اُس دور میں غزل کی روایت اور کلاسیکی روایت ساتھ ساتھ جڑی نظر آتی ہیں۔
’’خان پو رکا اَدب…خان پور کی120سالہ اَدبی تاریخ‘‘سے شائع ہونے والی کتاب میں سے متعددفارسی، اُردو، سرائیکی، پنجابی، سندھی اور دیگر زبانوں میں نظم اور نثر میں علمی، ادبی اور صحافتی و ثقافتی حوالے سے معروف اور نو آموز قلم کاروں کا مختصر اَحوال وکلام دستیاب معلومات کے مطابق وقتاً فوقتاً شائع کرتے رہیں گے۔
٭…آسی خان پو ر ی(مرحوم)۔ اُردو اور پنجابی کے نامور شاعر

آسی سحر بھی ہوگی ذرا انتظار کر
سورج ابھی تو شب کے گھنے جنگلوں میں ہے

محمد نیاز آسی خان پور ی پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے۔ ادبی تقاریب کر انے میں بہت فعال رہے۔ پہلے نثر میں پھر نظم میں طبع آزمائی کی۔ سہیل اختر بہاول پور سے اصلاح لیتے رہے۔ پنجابی اور اُردو میں شاعری کی۔آسی خانپوری نے غزل میں سماجی مسائل کے اظہار کر کے حسن کو ایک نیا رنگ دیا۔ ان کی شاعری میں داخلی اور خارجی کیفیات کے منفرد رنگ ملتے ہیں۔آسی ؔ خان پوری نے بہت عمدہ شاعری کی ہے جیسی لفظوں کو نگینوں کی طرح جوڑ دیا گیا ہو۔ آسیؔ خان پوری کی غزل میں سماجی روّیوں میں ہونے والی تبدیلیوں کا گہرا ادراک ملتا ہے۔ ان کی شاعری سچے جذبوں اور گہرے مشاہدے کا اظہار ہے۔ان کے ہاں جدت، تازہ کاری اور فن کی پختگی بہت نمایاں ہیں۔شعری مجموعے ’’موسم یہ خزاں جیسا‘‘(ادارہ مطبوعات اَدوار1989ء) اور’ ’چلو اب چھو ڑدو رنجش‘‘(الحمد پبلشرز لاہور، 1999ء) میں شائع ہو چکے ہیں۔ بچوں کی نظموں پر مشتمل مجموعہ’ ’صلح کے بعد‘‘ بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ایک اُردو ناول’’شرارِ سنگ‘ ‘اور پنجابی مجموعہ’ ’انگیار‘‘بھی شائع ہو چکا ہے ۔ خان پور سے ادبی پر چہ’’اَدوار‘‘ بھی نکالتے رہے۔ 2004 ء میں خان پور سے لاہور منتقل ہو گئے۔کچھ سال قبل لاہور میں وفات پا گئے ہیں۔آسی خانپوری کی حمد کا نمونہ کلام

زمیں تیری فلک تیرا ، تو مالک ہے بہاروں کا
تری قدرت سے سارا سلسلہ ہے کھلتے پھولوں کا

جو تو چاہے تو شاخوں کو ملیں پتے نئی رُت میں
جو تو چاہے تو اجڑا باغ مہکے پھر گلابوں کا

جو تو چاہے تو مٹی بھی بنے سونا زمانے میں
جو تو چاہے تو جاگ اُٹھے مقدر تیرہ بختوں کا

جو تو چاہے تو قطرے کو کرے اک گوہرِ تاباں
جو تو چاہے عطا ہو مرتبہ ذروں کا تاروں کا

جو تو چاہے توچشمہ ریگ زاروں سے نکل آئے
جو تو چاہے تو جاری سلسلہ ہو آبشاروں کا

جو تو چاہے تو بھر جائے مری اُمید کادامن
جو تو چاہے تو ہو آباد میرا شہر خوابوں کا
٭

اُردو غزل کا نمونہ

کیسے کیسے راستوں سے ہم گزر کر آئے ہیں
دیکھ کر چہروں پہ گردِ راہ اندازہ ہوا

کیسی کیسی خواہشوں کے ہم تعاقب میں رہے
اپنی محرومی کو دیکھا تو اندازہ ہوا

راہ میں چلتے ہوئے کیوں رک گئے میرے قدم
خامشی کے دشت میں یہ کیسا آوازہ ہوا
٭
چلا گیا جو مجھے چھوڑ کر مسافت میں
وہ لوٹ آئے گا یہ احتمال کیسا ہے

نہ کھل سکا یہ مرے ہاتھ کی لکیروں سے
مرے نصیب میں لکھا ملال کیسا ہے

پنجابی غزل کا نمونہ کلام

ساون آیا آجا میت
رَس پے گھولن میرے گیت

ہیراں لکھ لکھ پاون وین!
توڑ چڑھی نہ ایتھے پیت

تیرے میرے بارے لوک
گلاں کردے بھیتو بھیت

٭٭٭

(بحوالہ: خان پور کا ادب ، تحقیق و تالیف : محمد یوسف وحید ، ناشر: الوحید ادبی اکیڈمی خان پور ،اشاعت: 2021ء)

Related posts

Leave a Comment