عشرت معین سیما
……………………………………
ہم نے تو ہجرتوں کے تسلسل کا دکھ سہا
اپنے نگر کے پار کے اُس پار ہی سہی
یہ شعر جرمنی میں مقیم معروف پاکستانی شاعرہ، افسانہ نگار اور مترجم عشرت معین سیما کا ہے۔ توازن اور موزونیت بھی حسن ہی کا دوسرا نام ہے۔ وجدان و لا شعور کے پرزم سے اظہارِ ذات اور انکشافِ ذات کی دھنک رنگی پھوٹتی ہے تو خارجی عناصر پر غور و فکر ذمے داری کی جوت جگمگاتے اور ہمارے احساس کو لو دیتے ہیں۔ غزل و نظم میں جمالیاتی احساسات اور عصری صداقتوں کے ایک خاص حسنِ توازن نے سیما کے کلام کو رعنائی عطا کی ہے اور وقار بخشا ہے۔ وہ وجدانی محسوسات کو خاص شعوری بصیرت کے ساتھ برروئے کار لائی ہیں جس سے ذہن کے ساتھ حواس کے بیدار ہونے کا پتا چلتا ہے۔رومانوی فکر کی دھنک رنگی اور مشاہدات وتجربات کی عصری سچائیوں کو جذبے، فکر اور احساس کے امتزاج سے شعری تعبیر میں ڈھالنا زندہ شاعری کا ثبوت ہے:
بڑی لمبی مسافت ہے، حدیثِ دل ہے اک مصرع
عزیزو! شاعری ہرگز کبھی یک دم نہیں ہوتی
اگرچہ فی زمانہ عورت بھی مرد کے شانہ بہ شانہ زندگی کے دوڑ میں شریک ہے اور اُس کے تجربات و مشاہدات بھی وہی ہیں جو کسی مرد کے ہو سکتے ہیں مگر زندگی کے بہت سے ایسے گوشے بہت سے ایسے پہلو ہوتے ہیں جن پر ایک عورت ہی اظہارِ خیال کرتی ہے بلکہ بہتر انداز میں کرتی ہے۔اُس کی زندگی کے کچھ ایسے تجربات ہوتے ہیں جو لا شعور و وجدان کے پرزم سے گزر کر ایک یک سر مختلف فکری دھنک تشکیل دیتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عشرت معین سیما ’’مجازی خدا‘‘ ’اور ’آدھی گواہی‘‘ جیسی نظمیں نہ کہتیں۔وہ اپنی غزل میں یہ نہ کہتیں کہ رئیس کی اپنی بیٹی جب سے پختہ عمر کو پہنچی ہے اُس نے حویلی کی دیواریں اونچی کر لی ہیں۔ہم قبیلے والے روایت کو توڑیں گے اور اِس بار ایک لڑکی کو سردار بنائیں گے اور انہیں بڑے کرب کے ساتھ یہ نہ کہنا پڑتا کہ میں اُس کے چاک پر تمام عمر رقص کرتی رہی مگر میری خاک سبو نہ بن سکی۔انہیں طنزیہ لہجے میں یہ نہ کہنا پڑتا کہ پہلے تم چاند تارے توڑ کر تو لاؤ پھر میں بھی تمہیں سورج نکال کر دکھاؤں گی:
بڑھائیں گے روایت سے ہٹا کر سلسلہ اپنا
قبیلے میں اب ہم سردار اک لڑکی بنائیں گے
٭
تمام عمر مری خاک بن سکی نہ سبو
میں رقص کرتی رہی اُس کے چاک پر ناحق
٭
محل کی دیوار اور اونچی وہ کر رہا ہے
رئیس کی جب سے اپنی بیٹی بڑی ہوئی ہے
٭
تم چاند تارے توڑ کے لاؤ گے جس گھڑی
میں بھی تمہیں دکھاؤں گی سورج نکال کر
٭…٭…٭