اکرم کنجاہی ۔۔۔ بانو قدسیہ

بانو قدسیہ

بانو قدسیہ ۸ ؍نومبر ۱۹۲۸ ء کے روز فیروز پور مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئیں۔ قیام پاکستان کے بعد والدین کے ساتھ لاہور منتقل ہوئیں۔ انہیں زیادہ شہرت اُن کے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ سے ملی جو ادبی حلقوں میں زیرِ بحث رہتاہے مگر اُن کے کئی افسانوی مجموعے اشاعت پذیر ہوئے جن میں ناقابلِ ذکر، توجہ کی طالب(افسانوی کلیات)، امر بیل، باز گشت، کچھ اور نہیں، دانت کا دستہ، آتشِ زیرِ پااور دوسرا قدم، دوسرا دروازہ شامل بھی ہیں۔ اُن کا پہلا افسانہ’’وا ماندگیٔ شوق‘‘ ۱۹۵۰ء میں ادبِ لطیف میں شائع ہوا تھا۔وہ پنجابی اور اُردو دو زبانوں میں لکھتی ہیں۔افسانے اور ناول کے علاوہ ڈراما نگاری میں بھی وہ ممتاز مقام رکھتی ہیں۔افسانے کے کرداروںمیں بانو کا عمیق مشاہدہ جھلکتا ہے۔وہ کرداروں کو اُن کے مثبت اور منفی اوصاف کے ساتھ پلاٹ میں شامل کرتی ہیں۔ اُن کے ہاں اگر ایک طرف سماج کے اونچے طبقے کی عیش پرستی، ریا کاری اور منافقت ہے تو دوسری طرف غربت کے ہاتھوں خون تھوکتے اور کھانستے کردار بھی ملتے ہیں۔مختصر یہ کہ اُن کے کردار اپنی تھام تر بشری آرزؤں، خواہشوں اور کمزوریوں کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔
راجہ گدھ بانو قدسیہ کا مشہور ناول ہے، جس میںرزقِ حلال و حرام کو موضوع بنایا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مصنفہ کے نقطۂ نظر کے مطابق شخصی طور پر مال ایڈجسٹمنٹ پیدا ہوتی ہے۔وہ اسے مغربی فلسفیوں کے اثرات کا ثمرہ بھی قرار دیتی ہیں اور اِس کا حل روحانیت میں تلاش کرتی ہیں۔معاشرتی سطح پر تقسیمِ ہند کے بعد ہمارے ہاں سرمایہ دار طبقے کی لوٹ کھسوٹ اور ہوسِ زر پر بھی مصنفہ نے بات کی ہے۔ یہ ناول پاکستان میں کافی متنازع رہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک مال ایڈجسٹ نوجوان قیوم اور سیمی کے داخلی سفر کی کہانی ہے۔ سیمی باپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی جو جوان بیٹی اور بوڑھی بیوی کے پاس بیٹھ کر وقت برباد کرنے کی بجائے اپنی دولت اور سماجی رتبے کے ذریعے شہر کی خوب صورت ترین لڑکیاں حاصل کر سکتا ہے۔وہ اپنی ماں کے پاس نہیں رہ سکتی جو شوہر کو اس مقام پر پہنچا کر ناکارہ ہو چکی ہے اور پرانے صوفے کی طرح اس کا ہر انگ ڈھیلا ہو چکا ہے۔ شہر میں میٹھے انگوروں کی تلاش میں اس کی بیٹی کی عمر کی سیکڑوں لومڑیاں شکار کی تلاش میں گھومتی رہتی ہیں۔ بچاری بوڑھی عورت اپنے شوہر کے مشاغل سے واقف ہونے کے باوجود اس کو مجازی خدا سمجھتی ہے۔ خود کو جوان رکھنے کی ناکام کوشش کے تحت ہر ہفتے بیوٹی پارلر جاتی ہے کہ وہ جوان عورتوں سے خوف زدہ ہے۔ سیمی شاہ ایسے ریاکارانہ منافقانہ ماحول میں نہیں رہ پاتی اور والدین کو چھوڑ کر ہوسٹل میں آباد ہونا پسند کرتی ہے۔
راجہ گدھ مصنفہ کے اِس مذہبی نظریے کی دلالت کرتا ہے کہ رزق حرام دیوانگی اور مال ایڈجسٹمنٹ کا باعث بنتا ہے۔ ناول میں پروفیسر سہیل اس نظریہ کا خالق ہے۔راجہ گدھ ایک منفرد قسم کا ناول ہے مصنفہ کی زبان پر گرفت اور کردار نگاری کی مہارت اس کے مثبت پہلو ہیں۔ جنگل میں جانوروں کی کانفرنس اور مردار غذا کھانے کی سزا کے طور پر گدھ برادری کا جنگل بدر کیا جانا بظاہر غیر ضروری لگتا ہے لیکن یہ بھی رزق حرام کے نظریے کو متعین کرنے کی کوشش ہے اور کافی دلچسپ کوشش ہے۔راجہ گرھ ایسے فرد کی کہانی ہے جو اپنی کمزور شخصیت کی بنا پر اپنے اردگرد کے انبوہ میں ایڈجسٹ نہیں ہو پاتا اور اپنے احساس کمتری پر فتح حاصل کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے مختلف عورتوں کا سہارا لیتا ہے مگر کوئی سہارا مستقل ثابت نہیں ہوتا۔
معاشرتی عکاسی کے نقطہ نظر سے راجہ گدھ بہت زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے لیکن اس کے ابتدائی صفحات میں ایک دو مقامات پر پاکستان کے قیام کے بعد ظہور پذیر ہوئے نو دولت مند طبقے کی خود پسندی اور دولت کی ہوس کو اجاگر کیا گیا ہے۔ پاکستان کے نئے دولت مند طبقے کے مختلف سماجی اور نفسیاتی مسائل کے علاوہ زندگی کے کھوکھلے پن اور اس طبقے میں پیدا ہونے والی نئی نسل کے جذباتی اور نفسیاتی مسائل کا تجزیہ بڑی مہارت کے ساتھ کیا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد ہندو تاجروں کے چھوڑے ہوئے خلا کو پر کرنے کے لیے اس طبقے نے ایک طرف اپنی محنت سے بزنس مین پیدا کیے اور دوسری طرف سامراجی روایات کی افسر شاہی پیدا کی۔ کہانی پاکستان کی سرزمین سے ابھرتی ہے جہاں آزادی اور تقسیم وطن کے بعد نوجوانوں کی نئی نسل سامنے آئی جو مختلف ذہنی جذباتی اور نفسیاتی الجھنوں اور پیچیدگیوں کے ساتھ روحانی اضطراب کی کیفیات سے دوچار ہے۔ تقسیم کے المیے سے پاکستان ایک علیحدہ ملک کی حیثیت سے سامنے آیا، نئے معاشرے کا وجود ہوا اور دھیرے دھیرے جاگیرداروں اور نوابوں کی جگہ سرمایہ دار طبقہ حاوی ہوتا چلا گیا۔ مادی بنیاد پر سماج کی تشکیل ہونے سے حساس دل و دماغ رکھنے والے انسانوں کے اندر بیزاری کی کیفیت ظاہر ہونے لگیں۔
بانو قدسیہ پاکستانی خواتین ناول نگاروں میں کافی مشہور ادیبہ ہے۔جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ ناول میںحلال و حرام رزق کے مسئلے کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور ایک مخصوص نفسیاتی فلسفے کی شکست و ریخت کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں خود بانو قدسیہ نے انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہم مغرب کے اثرات سے نکل کر رزقِ حلال کے عادی ہو جائیں تو صرف اسی ایک تبدیلی کے زیر اثر ہماری معاشرتی زندگی سے تمام خرابیاں دور ہو سکتی ہیں کیونکہ انسانی زندگی میں تمام بے چینیوں کا سبب جو جرائم وخودکشی کی طرف مائل کرتا ہے رزقِ حرام ہے۔بنیادی طور یہ ایک ا خلاقی ناول ہے جس میں عوام کی توجہ رزقِ حلال کی جانب مبذول کرائی گئی ہے۔ بانو قدسیہ انسانوں کی بے راہ روی کا خاص سبب مغرب کی طرزَِ زندگی کو قرار دیتی ہیں جس کی پوری تقلید کرنے کی شدت اہل مشرق کے یہاں تیز تر ہوتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں انسان ذہنی،جذباتی و نفسیاتی ناآسودگیوں کا شکار ہوکر دیوالیہ اور دیوانگی کی بھول بھلیوں میں گم ہو رہا ہے۔ اُن کے خیال میں دیوالیہ پن کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ جب انسان اپنی معاشرتی زندگی میں بے پناہ ترقی کر لیتا ہے اور جب ترقی کے مدارج طے کرنے کے بعد اسے آگے بڑھنے کی کوئی امکانی صورت نظر نہیں آتی تو وہ دیوانگی کی طرف مائل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ (۱۹۸۱ء) ایک ایسے دور میں سامنے آیا جب ہمارے معاشرے میں ذات کی شکست و ریخت اور اخلاقی زوال جگہ بنا چکا ہے۔ اگر اس صورتِ حال میں تبدیلی کا اہتمام نہیں کیا گیا تو معاشرہ اپنی موت سے ہمکنار ہو جائے گا جس کا صحیح مطلب یہ ہوگا کہ انسان زبردست مادی ترقی کے باوجود اپنی ذات کے ہاتھوں شکست کھا چکا ہے۔ ہمارے معاشرے کی بقا روحانیت میں پوشیدہ ہے اور یہ ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے۔مغربی فلسفیوں نے ہماری روح پر جو زخم لگائے ہیں، ان کا علاج فرائیڈ کے نسخوں میں نہیں ملے گا کیونکہ اس کا طریقہ علاج روحانیت کو اس سے خارج کرکے وضع کیا گیا ہے۔
٭

Related posts

Leave a Comment