تزئین راز زیدی
تزئین راز زیدی کاتعلق ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے۔وہ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ تین شعری مجموعے راز داں‘ مضرابِ رگ جاں اور کسک منظر عام پر آچکے ہیں۔اُن کا افسانوی مجموعہ ’’ریزہ ریزہ خط و خال‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔اُن کے ہاں کچھ نہ کچھ اچھوتے موضوعات ضرور ملتے ہیں۔اکثر افسانے کا آغاز مکالمہ نگاری یا پھر کسی نہ کسی شعر سے کرتی ہیں کہ خود اُن کی پہلی پہچان شاعری ہے۔اِسی طرح اُن کے کئی افسانے ایسے ہیں جن کا اختتام قاری کی توقع کے خلاف سامنے آ کر چونکا دیتا ہے اور ایک خوش گوار کیفیت سے دوچار کرتے ہیں۔ مثلاً افسانے’’اٹوٹ انگ‘‘ کی ابتدا اِس شعر سے کی ہے:
سحر کسی سے بھی اب حالِ دل نہیں کہتا
جو کہہ سکو تو اُسی یارِ مہرباں سے کہو
اسی طرح افسانہ ’’نوے دن‘‘ کا آغاز اِس شعر سے کرتی ہیں:
سانس لینے کی اجازت تو میسر ہے ابھی
لوگ کس بات پہ طوفان اٹھائے ہوئے ہیں
اُن کی کہانی کا پلاٹ اکثر خونی رشتوں کے گرد گھومتا ہے، اُن کی اہمیت و ضرورت واضح کرتا ہے۔افسانہ ’’اٹوٹ انگ‘‘ میں وہ بہن بھائی جو بچپن میں ایک دوسرے کی تکلیف پر تڑپ اٹھتے ہیں۔ نئے رشتوں میں منسلک ہونے کے بعد خصوصاً اگلی پیڑھی کے رشتوں کے معاملے میں ایک دوسرے سے نا راض ہو جاتے ہیں اور کئی بار تو ایک دوسرے کی شکل دیکھنے تک کے لیے تیار نہیں ہوتے لیکن اللہ نے اِن خون کے رشتوں میں عجیب کھچ رکھ دی ہے اگر کوئی ایک دکھ تکلیف میں مبتلا ہو تو دوسرا تڑپ اٹھتا ہے۔اِس افسانے میں بھی بہن بھائی غزالہ اور بنّے میاں ایک دوسرے سے بے انتہا محبت کرتے ہیں مگر بنّے میاں کے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے اور بنّے میاں کے بیٹے کی نسبت طے ہونے پر غزالہ بھائی سے ناراض ہو جاتی ہے مگر جب ایک ٹرین حادثے میں بنّے میاں کے انتقال خبر آتی ہے تو بھائی کی محبت ایسے غالب آ تی ہے کہ غزالہ بے سدھ ہو جاتی ہے، اُس کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔
اُردو ادب میں خواتین افسانہ نگار کہیں نہ کہیں عورتوں کے مسائل پر بات ضرور کرتی ہیں۔ افسانہ نگاری میں تانیثیت کا آغاز تقسیمِ ہند سے پہلے ہی خواتین فکشن نگاروں کے ہاں ہو گیا تھا جو آج بھی جاری ہے۔تزئین کے افسانوں میں ’’ثانیثیت‘‘ کے حوالے سے بڑی شدت پائی جاتی ہے۔ خواتین کی ایثار و قربانی کا ذکر ملتا ہے۔ شادی شدہ عورتوں کے مسائل بھی لکھے ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ جہیز کی وجہ سے کتنی لڑکیوں کی شادی نہیں ہو رہی۔تزئین نے زیادہ تر یک کرداری بیانیہ افسانے لکھے ہیں۔مرکزی کردار جو کہانی بیان کرتا ہے افسانے کا حصہ ہوتا ہے۔ ’’نوے دن‘‘ اُن کا ایک پُر تاثیریک کرداری بیانیہ انداز کا افسانہ ہے۔افسانے کا مرکزی کردار ایک عورت جو ماں کے مرتبے سے متصف ہونے جا رہی ہے، وہ اپنا کرب بیان کرتی ہے۔ہمارے سماج اور معاشرت میں عورت کو مرد جو مجازی خدا بن کر گھر کی جنت برباد کر دیتا ہے، اُس کے ہرجائز ونا جائز حکم کی بجا آوری کرنا پڑتی ہے۔افسانے کا اختتامیہ پُر تاثیر ہے اور عورت جو ماں بھی ہے، اُس کی مظلومیت کی داستان کہہ رہا ہے:
’’میرے اور اس کے درمیان حد فاصل کھنچ چکی ہے، دائمی دوریاں جنم لے چکی ہیں۔ وہ جاتے سمے کتنا حیران ہوا ہوگا،مجھے اس بات کا بھی اندازہ ہے، وہ یہ بات سوچ بھی نہیں سکتا ہو گا کہ اس کا قاتل کوئی اور نہیں، میں ہوں، صرف اور صرف میں، جب کہ اس جرم میں میرا ہاتھ ہے نہ میری مرضی کو دخل، مجھے تو مشرق کی بیٹی ہونے کی سزا بھگتتے ہوئے صرف اور صرف احکامات کی بجا آوری ہی کرنی تھی، ہاں مجھے یہ قتل کرنا ہی تھا،جلد یا بدیر…سائیں کو بچے کی چہکار سے زیادہ میرے فگر سے پیار تھااور وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔‘‘
(سہ ماہی غنیمت ۱۲)
لیکن اُن کے ہاں مرد کے حوالے سے نسائی مسائل کا بیان یک رخا نہیں ہے۔ انہوں نے مرد کی شخصیت کے دونوں رُخ دکھائے ہیں۔مثلاً افسانہ ’’پھانس‘‘ میں مرد کی شخصیت کے دونوںپہلو دو مختلف مردوں کے حوالے سے سامنے آتے ہیں۔حسد و رقابت اورعورت کی نفسیات کہ محبت میں شراکت برداشت نہیں کرتی اور دوسری عورت کو سکھی دیکھ کر بلا وجہ دکھی ضرور ہو جاتی ہے۔یوں اُن کی کہانیاں ہماری زندگی سے جُڑی ہوئی ہیں۔