اکرم کنجاہی ۔۔۔ جیلانی بانو

جیلانی بانو

جیلانی بانو کے ہاں عورت کا کردار بہت اہم ہے۔اُن کے اکثر افسانوں کا مرکزی کردار عورت ہی ہوتی ہے۔ وہ ادب میں وارد ہوئیں تو ایک طرف رشید جہاں اور عصمت کے اسلوب بیاں کا طوطی بول رہا تھا تو دوسری طرف قرۃ العین اور خدیجہ اپنے پیش روؤں کے بنائے ہوئے راستوں کو کشادہ کر رہی تھیں۔ موضوعات میں گو نا گونی پیدا ہو چکی تھی۔ جیلانی بانو اِن خواتین کی نسبے سرسید کی تحریکِ اصلاح سے زیادہ متاثر تھیں۔ اُن کی ادبی شخصیت کی کئی جہات ہیں مثلاََ ناول نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، مترجم، مضمون نگار ۔انہوں نے عورتوں سے متعلق اچھے برے تمام موضوعات مو موضوع بنایا ہے۔وہ عورتوں کی تعلیمی و سماجی ترقی کی اہمیت کو نہ صرف تسلیم کرتی ہیں بلکہ ہر اُس رکاوٹ کی خلاف ہیں جو عورت کو آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔اُن کے ہاں کئی بے حد دل چسپ اور اہم کردار نظر آتے ہیں ۔’’ کرانتی‘‘ جو سماج میں ہونے والا ظلم و جبر کے خلاف صف ارا ہے، ’’غزل‘‘ جو دوسروں کو ترقی کا راستہ دکھاتی ہے۔ ’’لنگڑی پھو پھی‘‘ جو محبت کے دو بول کے بدلے ہر آرام و آسائش ٹھکرانے کے لیے تیار ہے۔’’رفو پھوپھی‘‘ جو محبت میں نا کامی کے بعد اپنے چہرے پر تیزاب ڈال لیتی ہیں۔ مشرقی اقدار و تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ ’’شہزاد آیا‘‘ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’’خاتون ہونے کے ناطے مجھ سے اکثر یہ کہا جتا ہے کہ میں عوعرتوں کے مسائل پر لکھوں۔ میں انسانیت کے مسائل پر لکھتی ہوں، ظاہر ہے اُس میں عورت بھی شامل ہے۔میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ ساری تعلیم اور ترقی کے باوجود فی زمانہ عورتوں کی شادی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ ہر سوسائٹۃ اور ہر عہد میں عورت مظلوم رہی ہے اور اب بھی ہے‘‘۔۔(روز نامہ جسارت ۶ جولائی ۱۹۸۴ء)۔انہیں ہمیشہ اس بات کا دکھ رہا کہ مشرق و مغرب میں کبھی عورت کے اِس کا درست مقام نہیں دیا گیا۔
جیلانی بانو کے والد حیرت بدایونی شاعر تھے وہ یو پی سے حیدر آباد میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔ افسانہ نگاری کی راہ سے اُردو ادب میں داخل ہوئیں اور نمایاں مقام حاصل کیا۔اُن کا پہلا افسانہ ’’مون کی مرین‘‘ ادبِ لطیف میں شائع ہوا۔انہوں نے دو ناولٹ ’’جگنو اور ستارے‘‘ ۱۹۶۵ء اور ’’نغمے کا سفر‘‘ ۱۹۷۷ء بھی لکھے۔ ایوانِ غزل (۱۹۷۶ء) ان کا پہلا ناول ہے۔ یہ ناول آزادی کے بعد تصنیف کیے جانے والی تخلیقات میں اہم ادبی مقام رکھتا ہے جو تلنگانہ تحریک اور حیدرآباد کے جاگیردارانہ نظام کے استحصال پسندانہ رویوں کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ جاگیردارانہ طبقہ اگرچہ موجودہ سماجی زندگی سے تقریبا ناپید ہو چکا ہے لیکن اس کی یادوں کے کھنڈر اب تک لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد تک کے چند سالوں تک کی حیدرآبادی تہذیب کا معروضی مطالعہ پیش کرتا ہے۔ تہذیب کی شکستگی اور زوال ہمارے ناول نگاروں کا محبوب موضوع رہا ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی اور چند دیگر ناول نگار بھی اس موضوع کی تاریخ میں قابل ذکر مقام رکھتے ہیں۔ایسی بلندی ایسی پستی حیدرآباد دکن کی تہذیبی زوال آمادگی کا کامیاب اظہارہے لیکن یہ ایوانِ غزل کے مقابلے میں مختصر نظر آتا ہے، اس لیے کہ اس میں محض جنس پرستی اوربے سمتی کو غیر ضروری طور پر نمایاں کیا گیا ہے۔
جیلانی بانو نے اسے ایک نئی زندگی دے کر ایوان غزل میں زندہ کر دکھایا ہے۔ ایوان غزل اگر اُس جماعت اور اس زمانے کے جاگیردار طبقے کے زوال پذیر حالات کی پوری نشاندہی کرتا ہے تو اس عہد کی سیاسی اور انقلابی صورتِ حال کی عکاسی سے انفرادیت بھی پیدا ہوئی ہے۔ اِس ناول میں سلطنت آصفیہ کا زوال، آزادی کی بڑھتی ہوئی لہر کے ساتھ بھی سامنے آتا ہے۔ ایوان غزل ایک پروقار عمارت ہے جو وقت اور حالات کی زد میں آ کر بوسیدہ ہوچکی ہے کہ اس عمارت میں رہنے والے لوگ پرانی قدروں سے عقیدت رکھتے ہیں۔واحدحسین دکن کے پرانے جاگیر دار ہیں اور ایوان غزل کے بانی ہیں وہ اس قدر جمال پرست واقع ہوئے ہیں کہ شاعری اور پھولوں کے حسن میں ڈوبے رہتے ہیں، لیکن ان کا بیٹا راشد تاجر ہے جو ہندوستانی پولیس کے ایکشن سے پہلے پیٹرول، ادویات اور سیمنٹ کی ذخیرہ اندوزی کر کے نئے سرمایہ دار طبقے میں شامل ہو جاتا ہے۔ حالانکہ حیدر آباد دکن ہندوستان کی تحریک آزادی سے الگ رہا تھا اور کانگریس کے سیاسی اور معاشی تحریکات کی ہوا یہاں تک نہیں پہنچی تھی پھر بھی یہاں کے جاگیرداروں میں مستقبل کے بارے میں عدم تحفظ اور تشویش کے آثار موجود تھے۔ حیدر آباد کے الحاق کے بعد واحد حسین خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر جاتے ہیں کیونکہ وہاں ان کا اپنا مستقبل زیادہ محفوظ نظر آتا ہے نرم و نازک اور شاعر واحد حسین باطنی طور پر اتنے سفاک ہیں کہ اپنی بہن کی جائیداد ہڑپ کرنے کے لیے اس کو اپاہج بنا دیتے ہیں اور بھائی کی موت کی خبر سن کر خوشیاں مناتے ہیں تقسیم وطن اور فسادات کی لہر بحرانی صورتِ حال کی عکاسی بھی کی گئی ہے تقسیم وطن کی وجہ سے ملک گیر پیمانے پر درندگی کا مظاہرہ اور فرقہ وارانہ قتل عام ہو رہا تھا لیکن اس وقت حیدرآباد پورے طور پر فسادات کی لپیٹ میں نہیں آیا تھا۔ہندوستان کی دوسری جگہوں کی نسبت حیدر آباد میں کسی حد تک سکون تھا لیکن فسادات کے زہریلے اثرات دھیرے دھیرے وہاں بھی سرایت کر رہے تھے۔ جاگیردارانہ نظام اور اس کی کشمکش سے بیداری کی لہر میں، تلنگانا سیاسی تحریک میں کسانوں مزدوروں اور محنت کشوں نے ایک نئی زندگی کے لیے بھر پور حصہ لیا تھا، جس کی تصویریں اِس ناول میں صاف نمایاں نظر آتی ہیں۔ جیلانی بانو نے پسماندہ لوگوں کی بد حا لی اور ان پر ہونے والی زیادتیوں اور مظالم کی بھرپور عکاسی کی ہے، پھر زوال پذیر معاشرت میں زندگی کے اَن گنت مسائل کی طرف نہ صرف اشارے ملتے ہیں بلکہ سماج اور ماحول میں عام عورت کی زندگی اور اس کی حیثیت ہی نہیں بلکہ عورتوں کی زندگی بھی ایک المیہ کی شکل اختیار کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جیلانی بانو کا دوسرا ناول’’بارش سنگ‘‘ ۱۹۸۵ء،ایوانِ غزل کی طرح ایک نظریاتی ناول ہے جو حیدرآباد اور اس کے قرب و جوار پر مشتمل ہے۔ حقیقت بیانی اور نفسیاتی شکست و ریخت کے نقطہ نظر سے بارشِ سنگ اردو ناول نگاری میں اہم مقام کا حامل ہے۔

Related posts

Leave a Comment