حمیدہ شاہین
اُن کا پہلا شعری مجموعہ ’’دستک‘‘جو غزلوں اور نظموں پر مشتمل تھا، ۲۰۰۵ء میں منظر عام پر آیا۔اُن کی شاعری در اصل جدید حسّیت اور عصری حسّیت کا عمدہ امتزاج ہے۔وجدانی کیفیات اور شعوری تجربات و مشاہدات کا حسنِ توازن ہے۔ اِس لیے یہ آج کی حقیقی شاعری ہے جو اُردو غزل کا تاریخی ارتقا بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے اور لچک دار اِس قدر ہے کہ عصری آشوب سے بھی پہلو تہی نہیں کرتی۔ اسلوبِ بیاں ایسا کہ روایت سے آگہی کلام میں جھلکتی محسوس ہو مگر اِس قدر نہیں کہ بار بار کی برتی ہوئی علامتیں فرسودگی اور بوسیدگی کا احساس دلائیں۔ اگرچہ وہ نظم کی بھی اچھی شاعرہ ہیں مگر مجھے اُن کی غزلوں میں فکری و موضوعاتی تنوع اور رنگا رنگی زیادہ دکھائی دی۔ جدائی کی کسک،تنہائی اور اُداسی کی کیفیات اور اُن کے بیان کا پلڑا بھاری دکھائی دیامگرپرانے موضوعات جدت اختیار کرنے کے بعد نئی رمزیت و اشاریت سے آشنا ہوئے:
آتشِ فرقت سے پگھلے جا رہے ہیں جسم و جاں
اُسے کہہ دینا انا کی برف بھی پانی ہوئی
میں ترے کنجِ تغافل سے نکلتی کیسے
میرا ساماں اسی کونے میں پڑا سجتا ہے
دل پہ سامانِ زمانہ کبھی رکھا ہی نہیں
اس گھڑونچی پہ محبت کا گھڑا سجتا ہے
شاہین نے ذاتی محسوسات کو روحِ عصر اور زندگی کے تقاضوں سے آشنا کیا۔بے شمار اشعار عصری حسیت کے حامل اور اُن کے معاشرتی و سماجی شعور کے عکاس تھے۔ ایک غزل کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔ یہ مکمل غزل ہمارے عہد کا نوحہ ہے۔ایک ہی موضوع اور ایک ہی فضا میں کہی گئی ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ اب غزل کے جو خد و خال متعین ہو رہے ہیں اُن میںتخلیق کار کے ہاں خود شناسی کے ساتھ عصری آگہی کا جوہر بھی ہونا چاہیے:
لکھ رہا ہے آدمی ہی آدمی کے خون سے
آج قرطاسِ زمیں پر وحشتوں کی داستاں
فاختہ کے گھونسلے میں گولیوں کے چھید ہیں
اسلحے کے ڈھیر پر بیٹھی ہوئی ہے نیم جاں
نیچے درج پہلے شعر میں ہمارے عہد کا سب سے بڑا المیہ بیان کیا گیا ہے۔ہمیں سائنس کی ترقی نے زندگی کی بے شمار مادی سہولتں بخش دی ہیں مگر اخلاقیات کی زوال پذیری نے ہم سے سکونِ قلب کی دولت چھین لی ہے۔ ہر شخص اندر سے یک و تنہا اور اُداس ہے، بے سکون ہے۔مال و دولت کی ریل پیل ہے مگر دل زندگی کی حقیقی مسرتوں سے محروم ہیں۔یہ ہمارا اجتماعی آشوب اور المیہ ہے۔ دوسرے شعر میں شاعرہ نے آرزؤں اور تمنّاؤں کی نا آسودگی، خوابوںکی شکستگی اور دشتِ زیست میں اپنی بے کراں تشنگی کا اظہار کیا ہے اور بختِ نا رسا کا شکوہ بھی کہ اِس حشر بہ داماں تشنگی میں اُن کے نصیب کے چند قطرے بھی بھنور کے سپرد کر دئیے گئے ہیں:
میں کتنی قیمت پہ کس دکاں سے خوشی خریدوں
کہاں سے لا کر سکون بانٹوں میں اِس نگر میں
دعا مری پیاس کی سمندر کو، جس نے رکھ دیں
مرے مقدر کی چند بوندیں بھنور بھنور میں
اُن کی شاعری نسائی اسلوبِ بیان کی حامل ہے۔ اگرچہ وہ کسی نسائی تحریک سے براہِ راست منسلک نہیں ہیں مگر نسائی لہجے میں خیال آرائی اور تانیثی سوچ پر مبنی اشعار بھی شاعرہ کی حساسیت کے آئینہ دار تھے۔تانیثیت کا ایک پہلو ہمارے عہد کا جبر، جنسی استحصال اور سماجی نا انصافی بھی ہے۔ اِن بے چینیوں کا ہمارے ادب پر بھی اثر پڑتا ہے۔گزشتہ کچھ عرصے میں غزل و نظم کے حوالے سے کوئی نمایاں اور قابلِ قبول ہئیتی و لسانی تجربہ سامنے نہیں آیا۔یہ بات نہیں کہ ادب پر کوئی جمود طاری ہو گیا ہے لیکن ادب نئی صدی میں بھی انسانی محرومیاں، المیے اور نا انصافیاں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ایک پڑاؤ سے دوسرے پڑاؤ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ لٹیرے ہی ہمارے گھر کے نگہبان ہیں۔ عزتوں اور عفتوں کے ہوس پرست تاجر انصاف کی مسند پر متمکن ہیں۔ ’’کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں‘‘، ’’تانیثیت‘‘ کے حوالے سے حمیدہ شاہین کی ایک نظم ’’عدالت‘‘ بے حد اہم ہے۔ شاعرہ نے سادہ اور رواں ترکیبوں کو حسنِ کلام اور تاثیرِ بیاں کے لیے کافی سمجھا ہے، جن سے نظم کا حسن نکھر آیا ہے۔عمدہ ترسیل اِس بات کا ثبوت ہے کہ شاعرہ نے قاری کے لیے تفہیم کو دقیق نہیں بنایا۔خیال پیچیدہ یا نا ہموار نہیں:
کوئی عورت کا دکھ بھی تو پوچھے جسے
اپنا گھر ڈھونڈتے ایک مدّت ہوئی
کون بدن سے آگے دیکھے عورت کو
سب کی آنکھیں گروی ہیں اِس نگری میں
زندگی ہو گئی سلوٹ زدہ ملبوس مگر
اُس کے ماتھے کی شکن پھر بھی نہ ہموار ہوئی